يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۗ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ
اے ایمان والو, (1) (اللہ سے کیے گئے) اپنے اقراروں کو پورا کرو، تمہارے لیے مویشی چوپایوں (2) کو حلال کردیا گیا ہے، ان کے علاوہ جو تمہیں بتا دئیے جائیں گے (3) لیکن جب تم حالت احرام میں ہو تو شکار کے جانوروں کو اپنے لیے حلال نہ بناؤ، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے
1: چوپایہ توہر اس جانور کو کہتے ہیں جو چار ہاتھ پاؤں پر چلتا ہے، لیکن ان میں سے صرف وہ جانور حلال ہیں جو مویشیوں میں شمار ہوتے ہیں، یعنی گائے اونٹ، اور بھیڑ بکری یا پھر ان مویشیوں کے مشابہ ہوں جیسے ہرن نیل گائے وغیرہ۔ 2: ان حرام چیزوں کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر آگے آیت نمبر 3 میں آرہا ہے 3: مویشیوں کے مشابہ جانور مثلاً ہرن وغیرہ اگرچہ حلال ہیں اور ان کا شکار بھی حلال ہے لیکن جب حج یا عمرے کے لئے کسی نے احرام باندھ لیا ہو تو ان جانوروں کا شکار حرام ہوجاتا ہے۔ 4: اس جملے نے ان تمام سوالات اور اعتراضات کی جڑ کاٹ دی ہے جو لوگ محض اپنی محدود عقل کے سہارے شرعی احکام پر عائد کرتے ہیں، مثلاً یہ سوال کہ جانور بھی تو آخر جان رکھتے ہیں، ان کو ذبح کرکے کھانا کیوں جائز کیا گیا جبکہ یہ ایک جاندار کو تکلیف پہنچانا ہے یا مثلاً یہ سوال کہ فلاں جانور کو کیوں حلال کیا گیا اور فلاں جانور کو کیوں حرام قرار دیا گیا ہے؟ آیت کے اس حصے نے اس کا مختصر اور جامع جواب یہ دے دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا خالق ہے وہی اپنی حکمت سے جس بات کا ارادہ فرماتا ہے اس کا حکم دے دیتا ہے، اس کا ہر حکم یقیناً حکمت پر مبنی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ اس کے ہر حکم کی حکمت بندوں کو سمجھ میں بھی آئے، لہذا بندوں کا کام یہ ہے کہ اس کے ہر حکم کو چون وچرا کے بغیر تسلیم کرکے اس پر عمل کریں۔