وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ ۖ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا
اور اگر ہم ان پر فرض (75) کردیتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو، یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑی تعداد کے علاوہ اس حکم کی تعمیل نہ کرتے، اور اگر وہ لوگ وہی کرتے جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے، تو ان کے لیے زیادہ بہتر، اور انہیں دین پر ثابت قدم رکھنے کے لیے زیادہ موثر ہوتا
44: مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو تو بڑے سخت قسم کے احکام دئے گئے تھے جن میں توبہ کے طور پر ایک دوسرے کو قتل کرنا بھی شامل تھا، جس کا ذکرسورۂ بقرہ (٥٤) میں آیا ہے، اب اگر کوئی ایسا سخت حکم دیا جاتا تو ان میں سے کوئی بھی عمل نہ کرتا، اب اس سے بہت آسان حکم یہ دیا جارہا ہے کہ آنحضرتﷺ کے احکام کو دل وجان سے تسلیم کرلو، لہذا عافیت کا راستہ یہی ہے کہ وہ آپﷺ کے صحیح معنی میں فرماں برادار بن جائیں۔ بعض روایات میں ہے کہ کچھ یہودیوں نے شیخی بھی بگھاری تھی کہ ہم توایسی فرماں برادار قوم ہیں کہ جب ہمارے اٰبا واجداد کو یہ حکم ہوا کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کریں تو انہوں نے اس جیسے سخت حکم پر عمل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا، : ٦٦ ان کی اس بات کی طرف بھی اشارہ کررہی ہے۔