سورة النسآء - آیت 60

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی (68) کرتے ہیں کہ وہ آپ پر اتاری گئی اور آپ سے پہلے اتاری گئی کتابوں پر ایمان (69) لے آئے ہیں، چاہتے ہیں کہ غیر اللہ سے فیصلہ کرائیں، حالانکہ انہیں اس کے انکار کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اور شیطان انہیں راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

42: یہاں سے ان منافقوں کا ذکر ہورہا ہے جو اصل دل سے تو یہودی تھے مگر مسلمانوں کو دکھانے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے، ان کا حال یہ تھا کہ جس معاملے میں ان کی توقع ہوتی کہ آنحضرتﷺ ان کے فائدے کا فیصلہ کریں گے ان کا مقدمہ تو آپ کے پاس لے جاتے ؛ لیکن جس مسئلے میں ان کو خیال ہوتا کہ آنحضرتﷺ کا فیصلہ ان کے خلاف ہوگا وہ مقدمہ آپ کے بجائے کسی یہودی سردار کے پاس لے جاتے، جسے اس آیت میں طاغوت کہا گیا ہے، منافقین کی طرف سے ایسے کئی واقعات پیش آئے تھے جو متعدد روایات میں منقول ہیں، طاغوت کے لفظی معنی ہیں نہایت سرکش ؛ لیکن یہ لفظ شیطان کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور ہر باطل کے لئے بھی، یہاں اس سے مراد وہ حاکم ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے بے نیاز ہو کر یا ان کے خلاف فیصلہ کرے، آیت نے واضح کردیا کہ اگر کوئی شخص زبان سے مسلمان ہونے کا دعوی کرے ؛ لیکن اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر کسی اور قانون کو ترجیح دے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔