يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے نبی ! آپ اس چیز کو کیوں حرام (١) بناتے ہیں جسے اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے، آپ اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہیں، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، نہایت مہربان ہے
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مدنی ہے اور اس میں واقعہ تحریم کا ذکر ہے، قرآن مجید نے یہ ذکر کیا کہ وہ حرام کردہ چیز کیا تھی، اس بنا پر مفسرین نے اس کی تعین میں دو مختلف مواقع ذکر کیے ہیں ایک واقعہ حضرت ماریہ قبطیہ کی تحریم کا ہے اور دوسرا حضرت زینت کے گھر میں شہد نہ کھانے کا ہے۔ ماریہ لونڈی تھیں جو مقوقس شاہ مصر نے آپ کی خدمت میں ٧ ہجری میں بطور ہدیہ پیش کی تھی ایک روز حضرت حفصہ کے مکان میں ان سے مباشرت پر حضرت حفصہ نے احتجاج کیا، اس کے نتیجہ میں نبی نے ان سے دوبارہ استمتاع نہ کرنے کی قسم کھائی جس پر یہ آیات نازل ہوئیں، اس سبب نزول کے پیش نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تحریم کا واقعہ ٧ ہجری کے بعد پیش آیا۔ حافظ ابن کثیر نے مختلف الفاظ کے ساتھ اس واقعہ کو ذکر کرنے کے بعدلکھا ہے کہ شہد کی تحریم والا واقعہ زیادہ صحیح ہے۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں : اس سورۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی واقعات پیش آئے تھے۔ اس سورۃ سے معلوم ہوا کہ حضرت سرورکائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کئی واقعات پیش آئے تھے۔ (١) ازواج مطہرات اور علی الخصوص دو بیویوں کا طلب نفقہ کرنا (٢) افشائے راز (٣) کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینا۔ یہ تین الگ الگ واقعات ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایلاء کرنا اور بیویوں سے کنارہ کش ہونا صرف پہلے واقعہ (نفقہ) کا نتیجہ تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کے بعد ازواج مطہرات کے ہاں تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے جایا کرتے تھے ایک مرتبہ کئی دن حضرت زینب کے ہاں زیادہ بیٹھے معلوم ہوا کہ حضرت زینب شہد پیش کرتی تھیں، بعض ازواج نے بہ تقاضائے رشک بشری یہ تدبیر اختیار کی کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زینب کے ہاں سے اٹھ کر آئیں تو کہا جائے آپ کے منہ سے مغافیر کی بوآتی ہے مغافیر کے پھول سے شہد کی مکھیاں شہد چوستی ہیں اور اس کی بواچھی نہیں ہوتی، یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھائی کہ آئندہ شہد نہ کھائیں گے۔ توسیع نفقہ کے سلسلہ میں سورۃ احزابط کی آیت تخییر نازل ہوئی یعنی ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ چاہیں تو دنیا لیلیں اور چاہیں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں رہیں اور آخرت لیں، معاملہ یہاں تک پہنچا تو سب نے بالاتفاق آخرت کو ترجیح دی۔