وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
اور آپ جب انہیں دیکھتے (٣) ہیں تو ان کے جسم آپ کو بہت اچھے لگتے ہیں، اور اگر وہ بات کرتے ہیں تو آپ ان کی گفتگو غور سے سنتے ہیں، وہ عقل و فہم اور خیر کی توفیق سے ایسے بے بہرہ ہیں جیسے دیوار سے ٹیک لگائی گئی لکڑیاں، ہر چیخ پر انہیں یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ انہی کے خلاف ہے، وہی لوگ حقیقی دشمن ہیں، آپ ان سے بچتے رہئے، اللہ انہیں ہلاک کر دے، وہ کدھر بہکے جا رہے ہیں
(٢) آیت ٤ میں ان کی علامات کی نشان دہی کی ہے اور ان کولکڑی کے کندوں کے ساتھ تشبیہ دے کر سمجھایا ہے کہ یہ اخلاق کی روح سے خالی ہیں جو اصل جوہر انسانیت ہے ان کے ضمیر مجرم ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ وہ ایمان کے ظاہری پردے کی آڑ میں منافقت کا کھیل کھیل رہے ہیں اس لیے انہیں ہر وقت دھڑکا لگارہتا ہے کہ نامعلوم کب ان کے جرائم کاپردہ فاش ہوجائے۔ آج کل منافقین مسلمین پربھی ان تمام لامتوں کو ایک ایک کرکے منطبق کرلیجئے کہ انکی وضع کیسی شاندار اور قیمتی ہے کہ خوامخواہ نظروں میں کھب جاتی ہے باتیں سنیے، علی الخصوص اس وقت کی جب مسائل قومیہ واصلاحیہ میں رب اللسان ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ دلوں کی باگیں انہی کے ہاتھ میں ہیں پھر جب کانفرس کی سٹیجوں پر سرگرم سامعہ نوازی ہوتے ہیں اور پرزور جملے ادا کرنے کے بعد تن کرکھڑے ہوجاتے ہیں تو واقعی معلوم ہوتا ہے کہ، کانھم خشب مسندہ۔ آخری علامت یہ بتلائی کہ کوئی بات زور سے کہیے سمجھیں گے کہ یہ ہماری ہی طرف اشارہ ہے۔