سورة المنافقون - آیت 1

إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اے میرے نبی ! جب آپ کے پاس منافقین (١) آتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ آپ بے شک اس کے رسول ہیں، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافقین بے شک پکے جھوٹے ہیں

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مدنی ہے غزوہ بنی مصطلق سے واپس پر یا تو دوران سفر میں اس کانزول ہوا اور یانبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ پہنچنے کے فورا بعد اس کانزول ہوا، اور غزوہ بنی مصطلق چھ ہجری کا واقعہ ہے۔ اس سورۃ کانزول ایک خاص واقعے کے تحت ہوا جس کی تفصیل کتب حدیث وسیرت میں مذکور ہے غزوہ بنی مصطلق سے فرغ ہونے کے بعد ابھی لشکراسلام اسی بستی میں قیام پذیر تھا جو مریسیع نامی کنویں پر آباد تھی کہ کنویں سے پانی لینے پر دو آدمیوں کا جھگڑا ہوگیا ان میں سے ایک جہجاہ بن مسعود غفاری، حضرت عمر (رض) کے ملازم تھے اور دوسرے صاحب سنان بن وبرالجہنی تھے جن کا قبیلہ خزرج کے ایک قبیلے کا حلیف تھا جہجاہ نے سنان کے ایک لات رسید کی اس پر سنان نے انصار کو مدد کے لیے پکارا اور جہجاہ نے مہاجرین کو آواز دی عبداللہ بن ابی منافق نے اس موقع پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اوس اور خزرج کو مہاجرین کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا، قریب تھا کہ دونوں فریق آپس میں لڑ پڑتے شور سن کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے آپ نے فرمایا، مابال دعوی الجاہلیۃ، دعوھا فانھا ذمیمہ۔ منافقین نے اس واقعہ کو بہت ہوا دی اور کہا کہ ان غریب اور ذلیل لوگوں کو تم نے جگہ دی اور آج یہ تمہارے سر پرسوار ہورہے ہیں ان کی مثال ایسی ہے کہ اپنے کتے کو کھلاپلاکر موٹا کرنا کہ تجھی کو پھاڑ کھائے خدا کی قسم مدینے پہنچ کر ہم میں جو عزت والا ہے ذلیل کو نکال دے گا اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی۔ چنانچہ اس سورۃ میں منافقین کی روش پر بہت تنقید کی اور ان کی منافقانہ شہادت کو جھوٹ قرار دیا اور بتایا کہ بلاشبہ آپ اللہ کے رسول ہیں مگر یہ لوگ دل سے یہ شہادت نہیں دے رہے اس لیے جھوٹ ہے اور یہ جھوٹی قسمیں اٹھا اٹھا کر اپنے جان ومال کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ قسم کے معنی شہادت اور دلالت کے ہیں مفسرین متاخرین نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا وہ اس دھوکے میں پڑگئے کہ قسم اس چیز کی کھائی جاتی ہے جس میں بڑائی اور عظمت ہو، اس لیے تمام قسموں میں عظمتوں ہی کو تلاش کرتے رہو۔