سورة النسآء - آیت 24

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور (تم پر حرام کردی گئیں) شوہر والی (31) عورتیں، مگر وہ عورتیں جو (جنگ کے بعد) تمہاری ملکیت میں آگئی ہوں اللہ نے تم پر ان احکام کو فرض کردیا، اور تمہارے لیے ان کے علاوہ (32) عورتوں سے مہر (33) دے کر شادی کرنا حلال کردیا گیا ہے، بشرطیکہ نیت نکاح کی ہو، زنا کی نہیں، پس ان سے جب (بحیثیت بیوی) تم فائدہ اٹھاؤ، تو انہیں ان کا مقرر شدہ مہر دو (34) اور مہر مقرر ہوجانے کے بعد، اگر تم (دونوں میاں بیوی) آپس میں کسی مبلغ کے گھٹانے بڑھانے پر اتفاق (35) کرلیتے ہو، تو کوئی حرج نہیں ہے، بے شک اللہ بڑا علم والا، بڑی حکمتوں والا ہے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

20: جوکنیزیں جہاد کے دوران گرفتار کرکے لائی جاتی تھیں اور ان کے شوہر دارالحرب میں رہ جاتے تھے ان کا نکاح ان شوہروں سے ختم ہوجاتا تھا، لہذا جب وہ دارالاسلام میں آنے کے بعد ایک حیض کی مدت پوری کرلیتیں اور ان کو پچھلے شوہر سے حمل نہ ہوتا تو ان کا نکاح دارالاسلام کے کسی مسلمان سے جائز تھا، مگر یہ حکم انہی باندیوں کا ہے جو شرعی طور پر باندی بنائی گئی ہوں، آجکل ایسی کنیزوں یا باندیوں کا کہیں وجود نہیں ہے۔ 21: مقصد یہ ہے کہ نکاح ایک دیرپا تعلق کا نام ہے جس کا مقصد صرف جنسی خواہش پوری کرنا نہیں ہے بلکہ ایک مضبوط خاندانی نظام کا قیام ہے جس میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریوں کے پابند ہوتے ہیں اور اس رشتے کو عفت وعصمت کے تحفظ اور بقائے نسل انسانی کا ذریعہ بناتے ہیں، صرف شہوت نکالنے کے لئے ایک عارضی تعلق پیدا کرلینا خواہ وہ پیسے خرچ کرکے ہی کیوں نہ ہو ہرگز جائز نہیں ہے۔