سورة الحشر - آیت 1

سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آسمانوں اور زمین میں جتنی چیزیں ہیں، سب اللہ کی تسبیح (١) بیان کرتی ہیں، اور وہ زبردست، بڑی حکمتوں والا ہے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ الحشر مدنی ہے اور غزوہ بنی نضیر کے بارے میں نازل ہوئی تھی جس طرح سورۃ انفال غزوہ بدر کے بارے میں نازل ہوئی اس لیے اس سورۃ کا نام سورۃ النضیر بھی منقول ہے یہ غزوہ ٤ ھ میں ہوا، اور غزوہ بیر معونہ کے بعد پیش آیا اور بیر معونہ کا سانحہ جنگ احد کے بعد رونما ہوا اس لیے صحیح یہ ہے کہ یہ چار ہجری کا واقعہ ہے۔ تاریخی پس منظر۔ عرب کے یہودی دنیا بھر کے یہودیوں سے الگ شمار ہوتے ہیں اس لیے عرب سے باہر کے یہودی مورخین نے ان کا ذکر تک نہیں کیا اس لیے ان کے حالات ان اقوال سے ماخوذ ہیں جو اہل عرب میں مشہور تھے ان یہودیوں کا کہنا ہے کہ ہم حضرت موسیٰ کے آخری عہد میں یہاں حجاز میں آکر آباد ہوئے تھے حضرت موسیٰ نے جو لشکر عمالقہ سے جنگ کے لیے بھیجا تھا انہوں نے اپنے نبی کی نافرمانی کی تھی لہذا دوسرے یہودیوں نے اس لشکر سے مقاطعہ کردیا، جس کی وجہ سے وہ یثرب میں مقیم رہنے پر مجبور ہوگئے مگر یہ قصہ خود ساختہ ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ دوسری روایت یہ ہے کہ جب بخت نصر نے بیت المقدس کو تباہ کیا تو اس زمانے میں متعدد قبائل وادی القری، تیماء اور یثرب میں آکر آباد ہوگئے دراصل بات یہ ہے کہ جب رومیوں نے فلسطین میں یہودیوں کا قتل عام کیا تھا تو ١٣٢ ء میں بہت سے یہودی قبائل بھاک کر یثرب میں آکر آباد ہوگئے اور جوڑ توڑ اور سود خواری کے ذریعہ سے اپنا قبضہ جمالیا۔ یثرب میں آباد ہونے والے قبائل میں بنی نضیر اور بنی قریظہ زیادہ مشہور تھے ان کو مذہبی سیادت حاصل تھی اس کے بعد ٤٥٠ ء یا ٥١ میں جب یمن میں سیلاب عظیم آیا جس کا ذکر سورۃ سبا میں ہے تو قوم سبا کے مختلف قبائل یمن سے نکل کر عرب کے اطراف میں پھیل گئے جن میں اوس اور خزرج بھی تھے یہ مدینہ میں آکر آباد ہوئے اور انہوں نے تدریجا یثرب پر قبضہ کرلیا، اس بنا پر بنی نضیر اور بنی قریظہ تو یثرب سے باہر جاکر آباد ہوگئے لیکن بنو قینقاع مدینہ ہی کے اندر سکونت پذیر رہے۔ ان قبائل نے عربی تہذیب اختیار کرلی اور انہوں نے تجارت وزراعت پر اپنا رسوخ قائم کرلیا، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو بنی قریظہ اور بنونضیر اوس کے حلیف تھے اور بنی قینقاع خزرج کے۔ جنگ بعاث میں اوس اور خزرج کے ساتھ ان کے حلیف بھی برسرپیکارتھے، نبی نے مدینہ پہنچ کر یہود اور مسلمانوں کے مابین ایک معاہدہ طے کیا جس میں یہ بھی شرط تھی کہ اگر کوئی باہر سے حملہ آور ہوگا تو سب مل کر دفاع کریں گے مگر انہوں نے نبی کی مخالفت کو اپنا نصب العین بنالیا اور ہر طرح آپکو اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہتکھنڈے استعمال کرنے اور ان کے مابین پھوٹ ڈالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے لگے خصوصا اوس اور خزرج کے درمیان پرانی عداوتوں کو ہوا دیتے تاکہ اسلامی اخوت کارشتہ تار تار ہوجائے جب جنگ بدر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو یہود کی دشمنی اور زیادہ بیدار ہوگئی اور بنی نضیر کاسردار کعب بن اشرف مکہ پہنچ کر کفار کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لیے اکسانے لگا آخر کار اس کی شرارتوں سے تنگ آکر نبی نے تین ہجری میں محمد بن مسلمہ انصاری کو بھیج کر اسے قتل کرادیا۔ بنو قینقاع نے بھی شرارتیں شروع کردیں اور مسلمان عورتوں سے برسرعام چھیڑ چھاڑ کرنے لگ گئے حتی کہ ایک روز ان کے بازار میں ایک مسلمان عورت کو برہنہ کردیا گیا جس کے نتیجہ میں ایک مسلمان اور یہودی قتل ہوگئے بالاآخر نبی ان کے محلہ میں تشریف لائے اور انہیں راہ راست پر آنے کی تلقین کی مگر اہوں نے الٹے جواب دینے شروع کردیے اس کے نتیجہ میں آپ نے دو ہجری کے آخر میں ان کے محلہ کا محاصرہ کرلیا اور انہوں نے پندرہ دن کے اندر ہتھیار ڈال دیے اب عبداللہ بن ابی منافق ان کی حمایت میں کھڑا ہوگیا اور اصرار کیا کہ ان کو معاف کردیا جائے چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی درخواست قبول کرلی ور انہیں مدینہ بدر ہونے کا حکم دے دیا۔ پھر جب تین ہجری میں بدر کا بدلہ لینے کے لیے قریش نے مدینہ پر حملہ کیا تو انہ یہودیوں نے دیکھا کہ قریش کی تین ہزار فوج کے مقابلہ میں مسلمان صرف ایک ہزار نکلے اور ان میں سے بھی تین سوکے قریب منافقین الگ ہو کر پلٹ آئے ہیں تو انہوں نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور مدافعت کے لیے مسلمانوں کے ساتھ شریک نہ ہونے کا ارادہ کرلیا، پھر جب اس معرکہ (جنگ احد) میں مسلمانوں کو نقصان پہنچا تو یہودی اور زیادہ جری ہوگئے حتی کہ بنی نضیر نے نبی کو قتل کرنے کی سازش کی جو عین وقت پر پکڑی گئی تو ان کی اس غداری کی بنا پر انہیں بلاتاخیر الٹی میٹم دے دیا گیا کہ دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جاؤ اس کے بعد اگر کوئی یہودی مل گیا تو اس کی گردن مار دی جائے گی۔ اس حکم کے خلاف عبداللہ بن ابی منافق نے یہودیوں کی پیٹھ ٹھونکی کہ میں دو ہزار آدمیوں سے تمہاری مدد کروں گا اور بنی قریظہ اور بنی غطفان بھی تمہاری مدد کے لیے آئیں گے اس لیے تم مدینہ نہ چھوڑو اور یہیں ڈٹ جاؤ اس بنا پر یہودیوں نے نبی کو جواب دیا کہ ہم مدینہ نہیں چھوڑیں گے جو کچھ تم سے ہوسکتا ہے کرگزرو۔ اس پر ربیع الاول چار ہجری میں ان کا محاصرہ کرلیا گیا بالآخر وہ مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے وار شام اور خیبر کی طرف چلے گئے اب صرف بنوقریظہ رہ گئے تھے جو مدینہ سے باہر آباد تھے اس سورۃ میں اسی جلاوطنی کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔