يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اے ایمان والو ! جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں (٩) میں (دوسروں کو) جگہ دو، تو انہیں جگہ دیا کرو، اللہ تمہارے لئے کشادگی پیدا کرے گا، اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو، تو اٹھ جاؤ، اللہ تم میں سے ایمان والوں اور اہل علم کے درجات بلند کرے گا، اور اللہ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے
(٥) مطلب یہ کہ سچا ایمان اور صحیح علم آدمی کو ادب وتہذیب سکھلاتا ہے اور اس سے انسان کے درجے بلند ہوتے ہیں، مولانا آزاد لکھتے ہیں ! جو قانون ارتقاء لامارک، ابن مسکویہ اور ڈارون نے دریافت کیا ہے وہ صرف مخلوقات کے جسم ہی تک محدود ہے لیکن محمد رسول اللہ کا قانون ارتقاء بتلاتا ہے کہ مرتبہ انسانیت تک پہنچنے کے بعد ارتقائے جسمی تو ختم ہوجاتا ہے اور ارتقائے روحانی کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور جسم انسانی انسان کا ہیکل اختیار کرنے کے بعد بھی انسان بننے کے لیے بہت کچھ بنتا اور ترقی کرتا رہتا ہے۔