يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
اے ایمان والو ! تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث (25) بن جاؤ، اور انہیں اس لییے نہ روک (26) رکھو، تاکہ تم نے انہیں جو دیا تھا اس میں سے کچھ تمہیں واپس مل جائے، الا یہ کہ وہ کھلی برائی کا ارتکاب کریں، اور ان کے ساتھ معاشرت اور بودوباش (27) میں اچھا برتاؤ کرو، اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں، تو ہوسکتا ہے کہ تمہیں ایک چیز ناپسند ہو، اور اللہ نے اس میں تمہارے لیے بہت سی بھلائیاں رکھی ہوں
16: زمانہ جاہلیت میں یہ ظالمانہ رسم چلی آتی تھی کہ جب کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوجاتا تو اس کے ورثاء اس عورت کو بھی میراث کا حصہ سمجھ کر اس کے اس معنی میں مالک بن بیٹھتے تھے کہ وہ ان کی اجازت کے بغیر نہ دوسری شادی کرسکتی تھی اور نہ زندگی کے دوسرے اہم فیصلے کرنے کا حق رکھتی تھی اس آیت نے اس ظالمناہ رسم کو ختم فرمایا ہے۔ اسی طرح ایک ظالمانہ رواج یہ تھا کہ جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی چاہتا کہ جو مہر ان کو دے چکا ہے وہ اسے واپس مل جائے تو وہ اپنی بیوی کو طرح طرح سے تنگ کرنا شروع کردیتا تھا، مثلاً وہ اس کو گھر میں اس طرح مقید رکھتا تھا کہ وہ بیچاری مجبور ہو کر شوہر سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے اسے خود یہ پیشکش کرے کہ تم اپنا مہر واپس لے لو، اور مجھے طلاق دے کر میری جان چھوڑ دو۔ آیت کے دوسرے حصے میں اس رواج کو حرام قرار دیا گیا ہے۔