وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا
اور اپنا مال کم عقلوں (6) کے حوالے نہ کرو، جسے اللہ نے تمہارا ذریعہ معاش (7) بنایا ہے، اور اس میں سے ان کے کھانے اور پہننے کا انتظام کرتے رہو، اور ان سے نرم لہجہ میں بات کرتے رہو
5: یتیموں کے سرپرستوں کی ذمہ داریاں بیان کی جارہی ہیں کہ ایک طرف تو انہیں یتیموں کے مال کو امانت سمجھ کر انتہائی احتیاط سے کام لینا ہے، دوسری طرف یہ بھی خیال رکھنا ہے کہ یتیموں کا پیسہ ایسے وقت ان کے حوالے کیا جائے جب ان میں روپے پیسے کی ٹھیک ٹھیک دیکھ بھال کی سمجھ اور اسے صحیح مصرف پر خرچ کرنے کا سلیقہ آچکا ہو۔ جب تک وہ نا سمجھ ہیں، ان کا مال ان کی تحویل میں نہیں دینا چاہیے اور اگر وہ خود مطالبہ کریں کہ ان کا مال ان کے حوالے کردیا جائے تو انہیں مناسب انداز میں سمجھا دینا چاہئے۔ اگلی آیت میں اسی اصول کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ وقتاً فوقتاً ان یتیم بچوں کو آزماتے رہنا چاہئے کہ آیا وہ اتنے سمجھ دار ہوگئے ہیں کہ انہیں اپنے مال کے صحیح استعمال کا سلیقہ آگیا ہے۔ یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ صرف بالغ ہوجانا بھی کافی نہیں، بلوغ کے بعد بھی اگر وہ سمجھ دار نہ ہو پائے ہوں تو مال ان کے حوالے نہ کیا جائے۔ بلکہ جب یہ محسوس ہوجائے کہ ان میں سمجھ آگئی ہے تب مال ان کے حوالے کیا جائے۔