سورة الفاتحة - آیت 5

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(آیت 2 الرحمن الرحیم کی تفسیر کا بقیہ حصہ): دنیا میں جب کبھی سچائی کی کوئی دعت ظاہر ہوئی ہے، تو کچھ لوگوں نے اسے قبول کرلیا ہے کچھ نے انکار کیا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے اس کے خلاف طغیان و جحود اور ظلم و شرارت کی جتھا بندی کرلی ہے۔ قرآن کا جب ظہور ہوا تو اس نے بھی یہ تینوں جماعتیں اپنے سامنے پائیں۔ اس نے پہلی جماعت کو اپنی آغوش تربیت میں لے لیا دوسری کو دعوت و تذکیر کا مخاطب بنایا مگر تیسری کے ظلم و طغیان پر حسب حالت و ضرورت پر زجر و توبیخ کی۔ اگر ایسے گروہ کے لیے بھی اس کے لب و لہجہ کی سختی رحمت کے خلاف ہے تو بلاشبہ اس معنی میں قرآن رحمت کا معترف نہیں اور یقیناً اس ترازو سے اس کی سے اس کی رحمت نہیں تولی جاسکتی۔ تم بار بار سن چکے ہو کہ وہ دین حق کے معنوی قوانین کو کائنات فطرت کے عام قوانین سے الگ نہیں قرار دیتا بلکہ انہی کا ایک گوشہ قرار دیتا ہے۔ فطرت کائنات کا اپنے فعل و ظہور کے ہر گوشے میں کیا حال ہے؟ یہ حال ہے کہ وہ اگرچہ سر تا سر رحمت ہے لیکن رحمت کے ساتھ عدالت اور بخشش کے ساتھ جزا کا قانون بھی رکھتی ہے۔ پس قرآن کہتا ہے، میں فطرت سے زیادہ کچھ نہیں دے سکتا۔ تمہاری جس مزعومہ رحمت سے فطرت کا خزانہ خالی ہے یقینا میرے آستین و دامن میں نہیں مل سکتی : ” فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل لخلق اللہ ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لا یعلمون : اللہ کی فطرت جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بناوٹ میں کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ یہی (اللہ کی ٹھہرائی ہوئی فطرت) سچا اور ٹھیک ٹھیک دین ہے لیکن اکثر انسان ایسے ہیں جو اس حقیقت سے بے خبر ہیں“۔ قرآن کے ان تمام مقامات پر نظر ڈالو جہاں اس نے سختی کے ساتھ منکروں کا ذکر کیا ہے یہ حقیقت بیک نظر واضح ہوجائے گی۔ (آیت 2، الرحمن الرحیم، کی تفسیرختم ہوئی) ۔۔۔۔۔ تفسیر آیت 3 اور 4: مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ ربوبیت اور رحمت کے بعد جس صفت کا ذکر کیا گیا ہے، وہ عدالت ہے، اور اس کے لیے ” مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ الدین : سامی زبانوں کا ایک قدیم مادہ ” دان“ اور ” دین“ ہے جو بدلہ اور مکافات کے معنوں میں بولا جاتا تھا اور پھر آئین و قانون کے معنوں میں بھی بولا جانے لگا۔ چنانچہ عبرانی اور آرامی میں اس کے متعدد و مشتقات ملتے ہیں۔ آرامی زبان ہی سے غالبا یہ لفظ قدیم ایران میں بھی پہنچا اور پہلو میں ” دینیہ“ نے شریعت وہ قانون کا مفہوم پیدا کرلیا۔ خورد اوستا میں ایک سے زیادہ موقع پر یہ لفظ مستعمل ہوا ہے اور زردشتیوں کی قدیم ادبیات میں انشاء و کتابت کے آئین و قواعد کو بھی ” دین دبیرہ“ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ علاوہ بریں زردشتیوں کی ایک مذہبی کتاب کا نام ” دین کارت“ ہے جو غالباً نویں صدی مسیحی میں عراق کے ایک موجد نے مرتب کی تھی۔ بہرحال عربی میں ” الدین“ کے معنی بدلہ اور مکافات کے ہیں۔ خواہ اچھائی کا ہو خواہ برائی کا : ستعلم لیلی ای دین تداینت۔ وای غریم فی التقاضی غریمہا پس مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے معنی ہوئے وہ جو جزا کے دن کا حکمراں ہے یعنی روز قیامت کا۔ اس سلسلے میں کئی باتیں قابل غور ہیں : ” دین“ کے لفظ نے جزا کی حقیقت واضح کردی : اولاً قرآن نے نہ صرف اس موقع پر بلکہ عام طور پر جزا کے لیے ” الدین“ کا لفظ اختیار کیا اور اسی لیے وہ قیامت کو بھی عموماً یوم الدین سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ تعبیر اس لیے اختیار کی گئی کہ جزا کے بارے میں جو اعتقاد پیدا کرنا چاہتا تھا اس کے لیے یہی تعبیر سب سے زیادہ موزوں اور واقعی تعبیر تھی وہ جزا کو اعمال کا قدرتی نتیجہ اور مکافات قرار دیتا ہے۔ نزول قرآن کے وقت پیروان مذاہب کا عالمگیر اعتقاد یہ تھا کہ جزا محض خدا کی خوشنودی اور اس کے قہر و غضب کا نتیجہ ہے۔ اعمال کے نتائج کو اس میں داخل نہیں۔ الوہیت اور شاہیت کا تشابہ تمام مذہبی تصورات کی طرح اس معاملے میں بھی گمراہی فکر کا موجب ہوا تھا۔ لوگ دیکھتے تھے کہ ایک مطلق العنان بادشاہ کبھی خوش ہو کر انعام و اکرام دینے لگتا ہے، کبھی بگر کر سزائیں دینے لگتا ہے اس لیے خیال کرتے تھے کہ خدا بھی ایسا ہی حال ہے وہ کبھی ہم سے خوش ہوجاتا ہے کبھی غیظ و غضب میں آجاتا ہے۔ طرح طرح کی قربانیوں اور چڑھاووں کی رسم اسی اعتقاد سے پڑی تھی۔ لوگ دیوتاؤں کا جوش غضب ٹھنڈا کرنے کے لیے قربانیاں کرتے اور ان کی نظر التفات حاصل کرنے کے لیے نذریں چڑھاتے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کا عام تصور دیوبانی تصورات سے بلند ہوگیا تھا لیکن جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے ان کے تصور نے بھی کوئی وقیع ترقی نہیں کی تھی۔ یہودی بہت سے دیوتاؤں کی جگہ خاندان اسرائیل کا ایک خدا مانتے تھے لیکن پرانے دیوتاؤں کی طرح یہ خدا بھی شاہی اور مطلق العنانی کا خدا تھا۔ وہ کبھی خوش ہو کر انہیں اپنی چہتی قوم بنا لیتا۔ کبھی جوش انتقام میں آ کر بربادی وہ ہلاکت کے حوالے کردیتا۔ عیسائیوں کا اعتقاد تھا کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے اس کی پوری نسل مغضوب ہوگئی اور جب تک خدا نے اپنی صفت ابنیت کو بشکل مسیح (علیہ السلام) قربان نہیں کردیا اس کے نسلی گناہ اور مغضوبیت کا کفارہ نہ ہوسکا۔ مجازات عمل کا معاملہ بھی دنیا کے عالمگیر قانون فطرت کا ایک گوشہ ہے : لیکن قرآن نے جزا و سزا کا اعتقاد ایک دوسری ہی شکل و نوعیت کا پیش کیا ہے۔ وہ اسے خدا کا کوئی ایسا فعل نہیں قرار دیتا جو کائنات ہستی کے عام قوانین و نظام سے الگ ہو بلکہ اسی کا ایک قدرتی گوشہ قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے، کائنات ہستی کا عالمگیر قانون یہ ہے کہ ہر حالت کوئی نہ کوئی اثر رکھتی ہے اور ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خاصہ ہے۔ ممکن نہیں یہاں کوئی شئے اپنا وجود رکھتی ہو اور اثرات و تنائج کے سلسلہ سے باہر ہو۔ پس جس طرح خدا نے اجسام و مواد میں خواص و نتائج رکھتے ہیں اسی طرح اعمال میں بھی خواص و نتائج ہیں اور جس طرح جسم انسانی کے قدرتی انفعالات ہیں اسی طرح روح انسانی کے لیے بھی قدرتی انفعالات ہیں۔ جسمانی موثرات جسم پر مرتب ہوتے ہیں۔ معنوی موثرات سے روح متاثر ہوتی ہے۔ اعمال کے یہی قدرت خواص و نتائج ہیں جنہیں جزا وسزا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اچھے عمل کا نتیجہ اچھائی ہے اور یہ ثواب ہے۔ برے عمل کا نتیجہ برائی ہے۔ اور یہ عذاب ہے۔ ثواب اور عذاب کے ان اثرات کی نوعیت کیا ہوگی؟ وحی الٰہی نے ہماری فہم و استعداد کے مطابق اس کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس نقشہ میں ایک مرقع بہشت کا ہے ایک دوزخ کا۔ بہشت کے نعائم ان کے لیے ہیں جن کے اعمال بہشتی ہوں گے۔ دوزخ کی عقوبتیں ان کے لیے ہیں جن کے اعمال دوزخی ہوں گے۔ ” لایستوی اصحاب النار واصحاب الجنۃ ہم الفائزون : اصحاب جنت اور اصحاب دوزخ (اپنے اعمال و نتائج میں) یکساں نہیں ہوسکتے۔ کامیاب انسان وہی ہیں جو اصحاب جنت ہیں“ جس طرح مادیات میں خواص و نتائج ہیں، اسی طرح معنویات میں بھی ہیں : وہ کہتا ہے تم دیکھتے ہو کہ فطرت ہر گوشہ وجود میں اپنا قانون مکافات رکھتی ہے۔ ممکن نہیں کہ اس میں تغیر یا تساہل ہو۔ فطرت نے آگ میں یہ خاصہ رکھا ہے کہ جلائے۔ اب سوزش و تپش فطرت کی وہ مکافات ہوگئی جو ہر اس انسان کے لیے ہے جو آگ کے شعلوں میں ہاتھ ڈال دے۔ ممکن نہیں کہ تم آگ میں کودو اور اس فعل کے مکافات سے بچ جاؤ۔ پانی کا خاصہ ٹھنڈک اور رطوبت ہے۔ ٹھنڈک اور رطوبت وہ مکافات ہے جو فطرت نے پانی میں ودیعت کردی ہے۔ اب ممکن نہیں کہ تم دریا میں اترو اور اس مکافات سے بچ جاؤ۔ پھر جو فطرت کائنات ہستی کی ہر چیز اور ہر حالت میں مکافات رکھتی ہے کیونکر ممکن ہے کہ انسان کے اعمال کے لیے مکافات نہ رکھے؟ یہی مکافات جزا و سزا ہے۔ آگ جلاتی ہے پانی یا ٹھنڈک پیدا کرتا ہے، سنکھیا کھانے سے موت، دودھ سے طاقت آتی ہے۔ کونین سے بخار رک جاتا ہے۔ جب اشیا کی ان تمام مکافات پر تمہیں تعجب نہیں ہوتا کیونکہ یہ تمہاری زندگی کی یقینیات ہیں تو پھر اعمال کے مکافات پر کیوں تعجب ہوتا ہے؟ افسوس تم پر، تم اپنے فیصلوں میں کتنے نا ہموار ہو ! تم گیہوں بوتے ہو اور تمہارے دل میں کبھی یہ خدشہ نہیں گزرتا کہ گیہوں پیدا نہیں ہوگا۔ اگر کوئی تم سے کہے کہ ممکن ہے گیہوں کی جگہ جوار پیدا ہوجائے، تو تم اسے پاگل سمجھو گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ فطرت کے قانون مکافات کا یقین تمہاری طبیعت میں راسخ ہوگیا ہے۔ تمہارے وہم و گمان میں بھی یہ خطرہ نہیں گزر سکتا کہ فطرت گیہوں لے کر اس کے بدلے میں جوار دے دے گی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ تم یہ بھی نہیں مان سکتے کہ اچھے قسم کا گیہوں لے کر برے قسم کا گیہوں دے گی تم جانتے ہو کہ وہ بدلہ دینے میں قطعی اور شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ پھر بتلاؤ کہ جو فطرت گیہوں کے بدلے گیہوں اور جوار کے بدلے جوار دے رہی کیونکر ممکن ہے کہ اچھے عمل کے بدلے اچھا اور برے عمل کے بدلے برا نتیجہ نہ رکھتی ہو؟ (مسنگ صفحہ 157 تا 163) تفسیر آیت 3 اور 4۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ربوبیت اور رحمت کے بعد جس صفت کا ذکر کیا گیا ہے، وہ عدالت ہے، اور اس کے لیے ” مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ الدین : سامی زبانوں کا ایک قدیم مادہ ” دان“ اور ” دین“ ہے جو بدلہ اور مکافات کے معنوں میں بولا جاتا تھا اور پھر آئین و قانون کے معنوں میں بھی بولا جانے لگا۔ چنانچہ عبرانی اور آرامی میں اس کے متعدد و مشتقات ملتے ہیں۔ آرامی زبان ہی سے غالبا یہ لفظ قدیم ایران میں بھی پہنچا اور پہلو میں ” دینیہ“ نے شریعت وہ قانون کا مفہوم پیدا کرلیا۔ خورد اوستا میں ایک سے زیادہ موقع پر یہ لفظ مستعمل ہوا ہے اور زردشتیوں کی قدیم ادبیات میں انشاء و کتابت کے آئین و قواعد کو بھی ” دین دبیرہ“ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ علاوہ بریں زردشتیوں کی ایک مذہبی کتاب کا نام ” دین کارت“ ہے جو غالباً نویں صدی مسیحی میں عراق کے ایک موجد نے مرتب کی تھی۔ بہرحال عربی میں ” الدین“ کے معنی بدلہ اور مکافات کے ہیں۔ خواہ اچھائی کا ہو خواہ برائی کا : ستعلم لیلی ای دین تداینت۔ وای غریم فی التقاضی غریمہا پس مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے معنی ہوئے وہ جو جزا کے دن کا حکمراں ہے یعنی روز قیامت کا۔ اس سلسلے میں کئی باتیں قابل غور ہیں : ” دین“ کے لفظ نے جزا کی حقیقت واضح کردی : اولاً قرآن نے نہ صرف اس موقع پر بلکہ عام طور پر جزا کے لیے ” الدین“ کا لفظ اختیار کیا اور اسی لیے وہ قیامت کو بھی عموماً یوم الدین سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ تعبیر اس لیے اختیار کی گئی کہ جزا کے بارے میں جو اعتقاد پیدا کرنا چاہتا تھا اس کے لیے یہی تعبیر سب سے زیادہ موزوں اور واقعی تعبیر تھی وہ جزا کو اعمال کا قدرتی نتیجہ اور مکافات قرار دیتا ہے۔ نزول قرآن کے وقت پیروان مذاہب کا عالمگیر اعتقاد یہ تھا کہ جزا محض خدا کی خوشنودی اور اس کے قہر و غضب کا نتیجہ ہے۔ اعمال کے نتائج کو اس میں داخل نہیں۔ الوہیت اور شاہیت کا تشابہ تمام مذہبی تصورات کی طرح اس معاملے میں بھی گمراہی فکر کا موجب ہوا تھا۔ لوگ دیکھتے تھے کہ ایک مطلق العنان بادشاہ کبھی خوش ہو کر انعام و اکرام دینے لگتا ہے، کبھی بگر کر سزائیں دینے لگتا ہے اس لیے خیال کرتے تھے کہ خدا بھی ایسا ہی حال ہے وہ کبھی ہم سے خوش ہوجاتا ہے کبھی غیظ و غضب میں آجاتا ہے۔ طرح طرح کی قربانیوں اور چڑھاووں کی رسم اسی اعتقاد سے پڑی تھی۔ لوگ دیوتاؤں کا جوش غضب ٹھنڈا کرنے کے لیے قربانیاں کرتے اور ان کی نظر التفات حاصل کرنے کے لیے نذریں چڑھاتے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کا عام تصور دیوبانی تصورات سے بلند ہوگیا تھا لیکن جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے ان کے تصور نے بھی کوئی وقیع ترقی نہیں کی تھی۔ یہودی بہت سے دیوتاؤں کی جگہ خاندان اسرائیل کا ایک خدا مانتے تھے لیکن پرانے دیوتاؤں کی طرح یہ خدا بھی شاہی اور مطلق العنانی کا خدا تھا۔ وہ کبھی خوش ہو کر انہیں اپنی چہتی قوم بنا لیتا۔ کبھی جوش انتقام میں آ کر بربادی وہ ہلاکت کے حوالے کردیتا۔ عیسائیوں کا اعتقاد تھا کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے اس کی پوری نسل مغضوب ہوگئی اور جب تک خدا نے اپنی صفت ابنیت کو بشکل مسیح علہی السلام قربان نہیں کردیا اس کے نسلی گناہ اور مغضوبیت کا کفارہ نہ ہوسکا۔ مجازات عمل کا معاملہ بھی دنیا کے عالمگیر قانون فطرت کا ایک گوشہ ہے : لیکن قرآن نے جزا و سزا کا اعتقاد ایک دوسری ہی شکل و نوعیت کا پیش کیا ہے۔ وہ اسے خدا کا کوئی ایسا فعل نہیں قرار دیتا جو کائنات ہستی کے عام قوانین و نظام سے الگ ہو بلکہ اسی کا ایک قدرتی گوشہ قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے، کائنات ہستی کا عالمگیر قانون یہ ہے کہ ہر حالت کوئی نہ کوئی اثر رکھتی ہے اور ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خاصہ ہے۔ ممکن نہیں یہاں کوئی شئے اپنا وجود رکھتی ہو اور اثرات و تنائج کے سلسلہ سے باہر ہو۔ پس جس طرح خدا نے اجسام و مواد میں خواص و نتائج رکھتے ہیں اسی طرح اعمال میں بھی خواص و نتائج ہیں اور جس طرح جسم انسانی کے قدرتی انفعالات ہیں اسی طرح روح انسانی کے لیے بھی قدرتی انفعالات ہیں۔ جسمانی موثرات جسم پر مرتب ہوتے ہیں۔ معنوی موثرات سے روح متاثر ہوتی ہے۔ اعمال کے یہی قدرت خواص و نتائج ہیں جنہیں جزا وسزا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اچھے عمل کا نتیجہ اچھائی ہے اور یہ ثواب ہے۔ برے عمل کا نتیجہ برائی ہے۔ اور یہ عذاب ہے۔ ثواب اور عذاب کے ان اثرات کی نوعیت کیا ہوگی؟ وحی الٰہی نے ہماری فہم و استعداد کے مطابق اس کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس نقشہ میں ایک مرقع بہشت کا ہے ایک دوزخ کا۔ بہشت کے نعائم ان کے لیے ہیں جن کے اعمال بہشتی ہوں گے۔ دوزخ کی عقوبتیں ان کے لیے ہیں جن کے اعمال دوزخی ہوں گے۔ ” لایستوی اصحاب النار واصحاب الجنۃ ہم الفائزون : اصحاب جنت اور اصحاب دوزخ (اپنے اعمال و نتائج میں) یکساں نہیں ہوسکتے۔ کامیاب انسان وہی ہیں جو اصحاب جنت ہیں“ جس طرح مادیات میں خواص و نتائج ہیں، اسی طرح معنویات میں بھی ہیں : وہ کہتا ہے تم دیکھتے ہو کہ فطرت ہر گوشہ وجود میں اپنا قانون مکافات رکھتی ہے۔ ممکن نہیں کہ اس میں تغیر یا تساہل ہو۔ فطرت نے آگ میں یہ خاصہ رکھا ہے کہ جلائے۔ اب سوزش و تپش فطرت کی وہ مکافات ہوگئی جو ہر اس انسان کے لیے ہے جو آگ کے شعلوں میں ہاتھ ڈال دے۔ ممکن نہیں کہ تم آگ میں کودو اور اس فعل کے مکافات سے بچ جاؤ۔ پانی کا خاصہ ٹھنڈک اور رطوبت ہے۔ ٹھنڈک اور رطوبت وہ مکافات ہے جو فطرت نے پانی میں ودیعت کردی ہے۔ اب ممکن نہیں کہ تم دریا میں اترو اور اس مکافات سے بچ جاؤ۔ پھر جو فطرت کائنات ہستی کی ہر چیز اور ہر حالت میں مکافات رکھتی ہے کیونکر ممکن ہے کہ انسان کے اعمال کے لیے مکافات نہ رکھے؟ یہی مکافات جزا و سزا ہے۔ آگ جلاتی ہے پانی یا ٹھنڈک پیدا کرتا ہے، سنکھیا کھانے سے موت، دودھ سے طاقت آتی ہے۔ کونین سے بخار رک جاتا ہے۔ جب اشیا کی ان تمام مکافات پر تمہیں تعجب نہیں ہوتا کیونکہ یہ تمہاری زندگی کی یقینیات ہیں تو پھر اعمال کے مکافات پر کیوں تعجب ہوتا ہے؟ افسوس تم پر، تم اپنے فیصلوں میں کتنے نا ہموار ہو ! تم گیہوں بوتے ہو اور تمہارے دل میں کبھی یہ خدشہ نہیں گزرتا کہ گیہوں پیدا نہیں ہوگا۔ اگر کوئی تم سے کہے کہ ممکن ہے گیہوں کی جگہ جوار پیدا ہوجائے، تو تم اسے پاگل سمجھو گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ فطرت کے قانون مکافات کا یقین تمہاری طبیعت میں راسخ ہوگیا ہے۔ تمہارے وہم و گمان میں بھی یہ خطرہ نہیں گزر سکتا کہ فطرت گیہوں لے کر اس کے بدلے میں جوار دے دے گی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ تم یہ بھی نہیں مان سکتے کہ اچھے قسم کا گیہوں لے کر برے قسم کا گیہوں دے گی تم جانتے ہو کہ وہ بدلہ دینے میں قطعی اور شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ پھر بتلاؤ کہ جو فطرت گیہوں کے بدلے گیہوں اور جوار کے بدلے جوار دے رہی کیونکر ممکن ہے کہ اچھے عمل کے بدلے اچھا اور برے عمل کے بدلے برا نتیجہ نہ رکھتی ہو؟ (مسنگ صفحہ 157 تا 163) قرآن اور صفات الٰہی کا تصور : قرآن نے خدا کی صفات کا جو تصور قائم کیا ہے سورۃ فاتحہ اس کی سب سے پہلی رونمائی ہے۔ ہم اس مرقع میں وہ شبیہ دیکھ سکتے ہیں جو قرآن نے نوع انسانی کے سامنے پیش کی ہے۔ یہ ربوبیت، رحمت اور عدالت کی شبیہ ہے۔ انہی تین صفتوں کے تفکر سے ہم اس کے تصور الٰہی کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ خدا کا تصور ہمیشہ انسان کی روحانی و اخلاقی زندگی کا محور رہا ہے۔ یہ بات کہ ایک مذہب کا معنوی اور نفسایتی مزاج کیسا ہے اور وہ اپنے پیرووں کے لیے کس طرح کے اثرات رکھتا ہے، صرف یہ بات دیکھ کر معلوم کرلی جاسکتی ہے کہ اس کے تصور الٰہی کی نوعیت کیا ہے؟ انسان کا ابتدائی تصور : جب انسان کے تصورات الوہیت کا ان کے مختلف عہدوں میں مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں ان کے تغیرات کی رفتار کچھ عجیب طرح کی دکھائی دیت ہے اور تعلیل وتوجیہ کے عام اصول کام نہیں دیتے۔ موجودات خلقت کے ہر گوشہ میں تدریجی ارتقا Evolution کا قانون کام کرتا ہے اور انسان کا جسم بتدریج ترقی کرتا ہوا نچلی کڑیوں سے اونچی کڑیوں تک پہنچا۔ اسی طرح اس کے دماغی تصورات بھی نچلے درجوں سے بلند ہوتے ہوئے بتدریج اونچے درجوں تک ہنچے لیکن جہاں تک خدا کی ہستی کے تصورات کا تعلق ہے معلوم ہوتا ہے کہ صورت حال اس سے بالکل برعکس رہی اور ارتقا کی جگہ ایک طرح کے تنزل یا ارتجاع کا قانون یہاں کام کرتا رہا۔ ہم جب ابتدائی عہد کے انسانوں کا سراغ لگاتے ہیں تو ہمیں ان کے قدم آگے بڑھنے کی جگہ پیچھے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ انسانی دماغ کا کا سب سے زیادہ پرانا تصور جو قدامت کی تاریکی میں چکتا ہے وہ توحید کا تصور ہے۔ یعنی صرف ایک ان دیکھی اور اعلی ہستی کا تصور جس نے انسان کو اور ان تمام چیزوں کو جنہیں وہ اپنے چاروں طرف دیکھ رہا تھا پیدا کیا۔ لیکن پھر اس کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس جگہ سے ان کے قدم بتدریج پیچھے ہٹنے لگے اور توحید کی جگہ آہستہ آہستہ اشراک اور تعدد الٰہ کا تصور پیدا ہونے لگا۔ یعنی اب اس ایک ہستی کے ساتھ جو سب سے بالاتر ہے دوسری قوتیں بھی شریک ہونے لگیں اور ایک معبود کی جگہ بہت سے معبودوں کی چوکھٹوں پر انسان کا سر جھک گیا۔ اگر خدا کے تصور میں وحدت کا تصور انسانی دماغ کا بلند تر تصور ہے اور اشراک اور تعدد کے تصورات نچلے درجے کے تصورات ہیں تو ہمیں اس نتیجہ تک پہنچنا پڑتا ہے کہ یہاں ابتدائی کڑی جو نمایاں ہوئی وہ نچلے درجہ کی نہ تھی۔ اونچے درجے کی تھی اور اس کے بعد جو کڑیاں ابھریں انہوں نے بلندی کی جگہ پستی کی طرف رخ کیا۔ گویا ارتقا کا عام قانون یہاں بے اثر ہوگیا۔ ترقی کی جگہ رجعت کی اصل کام کرنے لگی۔ انیسویں صدی کے نظریے اور ارتقائی مذہب : انیسویں صدی کے علمائے اجتماعیات کا عام نقطہ خیال یہ تھا کہ انسان کے دینی عقائد کی ابتدا ان اوہامی تصورات سے ہوئی جو اس کی ابتدائی معیشت کے طبعی تقاضوں اور احوال و ظروف کے قدرتی اثرات سے نشوونما پانے لگے تھے۔ یہ تصورات قانون ارتقا کے ماتحت درجہ بدرجہ مختلف کڑیوں سے گزرتے رہے اور بالآخر انہوں نے اپنی ترقی یافتہ صورت میں ایک اعلی ہستی اور خلاق کل خدا کے عقیدے کی نوعیت پیدا کرلی۔ گویا اس سلسلہ ارتقا کی ابتدائی کڑی اوہامی تصورات تھے جن سے طرح طرح کی الٰہی قوتوں کا تصور پیدا ہوا اور پھر اسی تصور نے ترقی کرتے ہوئے خدا کے ایک توحیدی اعقاد کی شکل اختیار کرلی۔ بے جا نہ ہوگا اگر اختصار کے ساتھ یہاں ان تمام نظریوں پر ایک اجمالی نظر دال لی جائے جو اس سلسلے میں یکے بعد دیگرے نمایاں ہوئے اور وقت کے علمی حلقوں کو متاثر کیا۔ دینی عقائد اور تصورات کی تاریخ بہ حیثیت ایک مستقل شاخ علم کے انیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ اٹھارویں صدی کے اواخر میں جب انڈوجرمن قبائل (یعنی وسط ایشیا کے آریائی قبائل) اور ان کی زبانوں کی تاریخ روشنی میں آئی تو ان کے دینی تصورات بھی نمایاں ہوئے اور اس طرح بحث و تنقید کا ایک نیا میدان پیدا ہوگیا۔ یہی میدان تھا جس کے مباحث نے انیسوی صدی کے اوائل میں بحث و نظر کی ایک مستقل شاخ پیدا کردی۔ یدنی دینی عقائد کی پیدائش اور ان کے نشوونما کی تاریخ کا علم مدون ہونے لگا۔ اسی دور میں عام خیال یہ تھا کہ خدا پرستی کی ابتدا نیچر متھس (Nature-myths) کے تصورات سے ہوئی۔ یعنی ان خرافاتی اساطیر سے ہوئی جو مظاہر فطرت کے متعلق بننا شروع ہوگئے تھے۔ مثلاً روشنی کی ایک مستقل ہستی کا تصور پیدا ہوگیا۔ بارش کی قوت نے ایک دیوتا کی شکل اختیار کرلی۔ قدیم آریائی تصورات سے جو مظاہر فطرت کی پرستش پر مبنی تھے اس خیال کا مواد فراہم ہوا تھا۔ لیکن انیسویں صدی کے نصف ابتدائی دور میں جب افریقہ اور امریکہ کے وحشی قبائل کے حالات روشنی میں آئے تو ان کے دینی تصورات کی تحقیقات نے ایک نئے نظریے کا سامان فراہم کردیا۔ 1760 ء میں دہ بروسے (De Brosses) نے انہی وحشی قبائل کے تصورات سے فیتش ورشپ (Fetish Worship) کا استنباط کیا تھا۔ یعنی ایسی اشیاء کی پرستش کا جن سے کسی جنی روح کی وابستگی یقین کی جاتی تھی۔ اب پھر 1851 ء میں اے۔ کامٹ (Comete) نے اسی پرستش سے خدا پرستی کی پیدائش کا نظریہ اختیار کیا اور سر جان لبک نے (جو آگے چل کر لارڈ اویبری کے لقب سے مشہور ہوا) اسے مزید بحث و نظر کا جامہ پہنایا۔ اس نظریے کا اس عہد میں عام طور پر استقبال کیا گیا تھا اور وقت کے علمی حلقوں کی قبولیت اس نے حاصل کرلی تھی۔ تقریباً اسی عہد میں میں ازم (Manism) یعنی اجداد پرستی کے نظریے نے سر اٹھایا۔ اس نظریے کی بنیاد اس قیاس پر رکھی گئی تھی کہ انسان کو آباء وا جداد کی محبت و عظمت نے پہلے ان کی پرستش کی راہ دکھائی۔ پھر اسی پرستش نے قانون ارتقا کے ماتحت ترقی کر کے خدا پرستی کی نوعیت پیدا کرلی۔ صحرا نشین اور چراگاہوں کی جستجو کرنے والے قبیلوں کے ابتدائی تصورات میں اجداد پرستی کا ذہنہ مواد موجود تھا۔ چین کی قدیم تاریخ میں بھی اس پرستش کا سراغ بہت دور تک ملنے لگا تھا۔ اس لیے اس نئے نظریے کے لیے ضروری مواد فراہم ہوگیا اور 1870 ء میں جب ہر برٹ اسپنسر اپنے آسیبی نظریے (Ghost theory) کی بنیاد اسی تخیل پر استوار کی تو وقت کے فلسفیوں اور اجتماعیات کے عالموں کے حلقے میں اس نے فوراٍ مقبولیت پیدا کرلی۔ اسی عہد میں ایک دوسرا نظریہ بھی بروئے کار آیا اور اس نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کرلی۔ یہ ای بی ٹیلراینی مزم (Animism) کا نظریہ تھا۔ 1872 ء میں اس نے اپنی مشہور کتاب پری مے ٹیوکلچر شائع کی اور اس میں دینی عقائد کی کم از کم تعریف اینی مزم کے ذریعہ کی۔ اینی مزم سے مقصود یہ ہے کہ انسان کے تصورات میں اس کی جسمانی زندگی کے علاوہ ایک مستقل روحانی زندگی کا تصور بھی پیدا ہوجائے۔ اس ” مستقل روحانی زندگی“ کا تصور ٹیلر کے نزدیک خدا پرستی اور دینی عقائد کا بنیادی مادہ تھا۔ اسی مادہ نے نشوونما پا کر خدا کی ہستی کے عقیدے کی نوعیت پیدا کرلی۔ غالبا دینی عقائد کی پیدائش کے تمام نظریوں میں یہ پہلا نظریہ ہے جو علمی طریقہ پر پوری طرح مرتب کیا گیا اور بحث و نظر کے تمام اطراف و جوانب منظم اور آراستہ کیے گئے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وقت کے تمام علمی حلقوں پر اس نظریے نے ایک خاص اثر ڈالا تھا اور عام طور پر اسے ایک مقررہ اور طے شدہ اصل کی شکل میں پیش کیا جانے لگا تھا۔ انیسویں صدی کے اختتام تک اس نظیے کا یہ اقتدار بلا استثنا قائم رہا۔ اسی اثنا میں مصر، بابل، اور اشوریا کے قدیم آثار و کتبات کے حل سے تاریخ قدیم کا ایک بالکل نیا میدان روشنی میں آنے لگا تھا اور ان آثار کے مباحث نے مستقل علوم کی حیثیت پیدا کرلی تھی۔ اس نئے مواد نے مظاہر فطرت کی پرستش کی اصل کو از سر نو اہمیت دے کر ابھار دیا کیونکہ وادی نیل اور وادی دجلہ وفرات کے یہ دونوں قدیم تمدن دینی عقائد کے یہی تصورات نمایاں کرتے تھے۔ چنانچہ اب پھر ایک نیا مذہب (اسکول) پیدا ہوگیا جو خدا پرستی کے پیدائش کی ابتدائی بنیاد مظاہر فطرت کے تاثرات کو قرار دیتا تھا۔ اور خصوصیات کے ساتھ اجرام سماوی کے تاثرات پر زور دیتا تھا۔ اس نظریے کے حامیوں نے اینی مزم کی مخالفت کی اور ایسٹرل اینڈ نیچر میتھالوجسٹ (Astral and Nature Mythologists) کے نام سے مشہور ہوئے۔ لیکن انیسویں صدی کے نصف آخری حصے میں جبکہ یہ تمام نظریے سر اٹھا رہے تھے دوسری طرف ایک خاص علمی حلقہ ایک دوسرے نظریے کی بنیادیں بھی چن رہا تھا۔ اس نظریے کا مواد قدیم ترین تمدنی عہد کے شکار پیشہ قبائل کے تصورات نے بہم پہنچایا تھا جن کے حالات اب تاریخ کی دسترس سے باہر نہیں رہے تھے۔ یہ نظریہ ٹو ٹمزم (Totemism) کے نام سے مشہور ہوا اور بہت جلد اس نے وقت کے علمی حلقوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ ٹوٹمزم سے مقصود مختلف اشیاء اور جانوروں کے وہ انتسابات ہیں جو جمعیت بشری کی ابتدائی قبائلی زندگی میں پیدا ہوگئے تھے اور پھر کچھ عرصے کے بعد ان اشیاء اور جانوروں کا غیر معمولی احترام کیا جانے لگا تھا۔ اس نظریے کی رو سے خیال کیا گیا کہ ہندوستان کی گائے، مصر کا مگرمچھ اور وہیل، شمالی خطوں کا ریچھ، اور صحرا نشین قبائل کا سفید بچھڑا اور دراصل ٹوٹمزم ہی کے بقایا ہیں۔ سب سے پہلے 1885 ء میں رابرٹسن سمتھ نے اس نظریے کا اعلان کیا تھا۔ پھر وقت کے دوسرے نظار نے بھی اسی رخ پر قدم اٹھایا۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد اس نظریے کی مقبولیت مجروح ہونا شروع ہوگئی۔ پروفیسر جے۔ جی۔ فریزار کا جمع کیا ہوا مواد جب منظر عام پر آیا تو معلوم ہوا کہ ٹوٹمزم کے تصورات نجہ تو دینی تصورات کی نوعیت رکھتے تھے نہ دینی تصورات کا مبدء بننے کی ان میں صلاحیت تھی۔ ان کی اصلی نوعیت زیادہ سے زیادہ ایک اجتماعی نظام کی تھی جس کے ساتھ طرح طرح کے تصورات کا ایک سلسلہ وابستہ ہوگیا تھا۔ اس سے زیادہ انہیں اس سلسلہ میں اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ مگر اس سلسلہ میں معاملہ کا ایک اور گوشہ بھی نمایاں ہوا تھا۔ فریزر نے ٹوٹمزم کے تصورات میں ایک خاص قسم ایسی بھی پائی تھی جس میں دینی عقائد کا ابتدائی مواد بننے کی زیادہ صلاحیت دکھائی دیتی تھی۔ یعنی وہ قسم جو جادو کے اعتقاد سے تعلق رکھتی ہے۔ بحث و نظر کے اس گوشے نے مفکروں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرلیا اور جادو کا نظریہ علمی حلقوں میں روشناس ہوگیا۔ 1892 ء میں ایک امریکی عالم جے۔ ایچ کنیگ اس پہلو پر توجہ دلا چکا تھا۔ اب بیسوی صدی کے اابتدائی برسوں بیک وقت جرمنی، انگلینڈ، فرانس اور امریکہ علمی حلقوں سے اس کی باز گشت شروع ہوگئی اور اینمزم کے خلاف رد فعل کام کرنے لگا۔ اب یہ خیال عام طور پر پھیل گیا کہ اینمزم کے تصورات سے پیشتر بھی انسانی تصورات کا ایک دور رہ چکا ہے اور یہ ماقبل اینمزم (Preanimism) دور، جادو کے تصورات کا دور تھا۔ اسی جادو کے اعمال کے عقیدے نے آگے چل کر روحانی عقائد کی شکل اختیار کرلی اور خدا پرستی اور دینی عقائد کے مبادیات پیدا ہوگئے۔ اب جادو کا نظریہ ایک عام مقبول نظریہ بن گیا اور پچھلے نظریے اپنی جگہ کھونے لگے 1895 ء میں آر، آر، میرٹ نے، 1902 میں ہیوٹ نے، 1904 میں کے۔ پریبو نے، 1907 میں اے وائر کنڈٹ نے، اور 1908 میں ای۔ ایس۔ ہارٹ لینڈ نے اسی نظریے پر اپنے بحث و فکر کی تمام دیواریں اٹھائیں اور اسے دور تک پھیلاتے چلے گئے۔ سب سے زیادہ حصہ اس میں فرانس کے علمائے اجتماعیات کے اس طبقہ نے لیا جو دور کیم (Durkheim) کے مسلک نظر سے تعلق رکھتا تھا۔ اس طقبہ کا زعیم پہلے ایچ۔ ہیوبرٹ اور ام۔ ماس تھا۔ پھر 1912 ء میں خود دورکیم آگے بڑھا اور اس نظریے کا سب سے بڑا علم بردار بن گیا۔ اس گروہ کی رائے میں ٹوٹمزم اور جادو کے تصورات کا مرتکب مجموعہ جیسا کہ وسط آسٹریلیا کے قبائل کے اوہام میں پایا جاتا ہے جمعیت بشری کے دینی تصورات کا اصلی مبدء تھا۔ قانون ارتقا کے ماتحت انہی تصورات نے خدا پرستی کے عقائد کی ترقی یافتہ شکل پیدا کرلی۔ اس زمانہ کے چند سال بعد بعض پروٹسنٹ علما نے جو دینی عقائد کے نفسیاتی مطالعہ میں مشغول تھے۔ مسئلے پر نفسیاتی نقطہ نگاہ سے نظر ڈالی اور اس نظریے کی حمایت شروع کردی۔ وہ اس طرف گئے کہ خدا پرستی کے عقیدے کا مبدء ہمیں مذہب اور سحر کاری، دونوں کے مرکب تصورات میں ڈھونڈھنا چاہیے۔ اس جماعت کا پیشرو آرچ بشپ سوڈر بلوم (Soderblom) تھا جس کے مباحث 1916 ء میں شائع ہوئے۔ اس کے بعد کا زمانہ پہلی عالمگیر جنگ کا زمانہ تھا جو بیسویں صدی کا ایک دور ختم کر کے دوسرے دور کا دروازہ کھول رہی تھی۔ اس نئے دور نے جہاں علم و نظر کے بہت سے گوشوں کو انقلابی تغیرات سے آشنا کیا وہاں علم کی اس شاخ میں میں بھی ایک نیا انقلابی دور شروع ہوگیا۔ یہ تمام پچھلے نظریے مادی مذہب ارتقا (Materialisttics Evolutionism) کی اصل پر مبنی تھے۔ ان سب کے اندر یہ بنیادی اصل کام کر رہی تھی کہ اجسام و مواد کی طرح انسان کی دینی عقیدہ بھی بتدریج نچلی کڑیوں سے ترقی کرتا ہوا اعلی کڑیوں تک پہنچا ہے اور خدا پرستی کے عقیدہ میں توحید (Monotheism) کا تصور ایک طول طویل سلسلہ ارتقا کا نتیجہ ہے۔ انیسویں صدی کا نصف آخر ڈارونزم کے شیوع و احاطہ کا زمانہ تھا اور بختر، ویلز، اسپنسر نے اسے اپنے فلسفیانہ مباحث سے انسانی فکر و عمل کے تمام دائروں میں پھیلا دیا تھا۔ قدرتی طور پر خدا کے اعتقاد کی پیدائش کا مسئلہ بھی اس سے متاثر ہوا اور نظر و بحث کے جتنے قدم اٹھے وہ اسی راہ پر گامزن ہونے۔ مذہب ارتقا کا خاتمہ اور زمانہ حال کی تحقیات : لیکن ابھی بیسویں صدی اپنے انقلاب انگیز انکشافوں میں بہت آگے نہیں بڑھی تھی کہ ان تمام نظریوں کی عمارتیں متزلزل ہونا شروع ہوگئیں اور پہلی عالمگیر جنگ کے بعد کے عہد نے تو انہیں یک قلم منہدم کردیا۔ اب تمام اہل نظر بالاتفاق دیکھنے لگے کہ اس راہ میں جتنے قدم اٹھائے گئے تھے دوسرے سے اپنی بنیاد ہی میں غلط تھے۔ کیونکہ ان سب کی بنیاد قانون اور ارتقا کی اصل پر رکھی گئی تھی اور ارتقائی اصل کی رہنمائی یہاں سود مند ہونے کی جگہ گمراہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اب انہیں ٹھوس اور ناقابل انکار تاریخی شواہد کی روشنی میں صاف صاف نظر آگیا کہ انسان کے دینی عقائد کی جس نوعیت کو انہوں نے اعلی اور ترقی یافتہ قرار دیا تھا وہ بعد کے زمانوں کی پیداوار نہیں ہے بلکہ جمعیت بشری کی سب سے زیادہ پرانی متاع ہے۔ مظاہر فطرت کی پرستش، حیوانی انتسابات کے تصورات، اجداد پرستی کی رسوم، اور جادو کے توہمات کی اشاعت سے بھی بہت پہلے جو تصور انسانی دل و دماغ کے افق پر طلوع ہوا تھا وہ ایک اعلی ترین ہستی کی موجودگی کا بے لگاگ تصور تھا۔ یعنی خدا کی ہستی کا توحید کی اعتقاد تھا ! چنانچہ اب بحث و نظر کے اس گوشہ میں ارتقائی مذہب کا یک قلم خاتمہ ہوچکا ہے۔ ڈبلیو شمٹ (Schmidt) پروفیسر وائنا یونیورسٹی جنہوں نے اس موضوع پر زمانہ حال کی سب سے بہتر کتاب لکھی ہے لکھتے ہیں : ” علم شعوب و قبائل انسانی کے پورے میدان میں اب پرانا ارتقائی مذہب یکسر دیوالیہ ثابت ہوچکا ہے۔ نشوونما کی مرتب کڑیوں کا وہ خوشنما سلسلہ جو اس مذہب نے پوری آمادگی کے ساتھ تیار کردیا تھا اب ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور نئے تاریخی رجحانوں نے اسے اٹھا کر پھینک دیا ہے“۔ (دی اریجین اینڈ گروتھ آف ریلیجن۔ صفحہ 8)۔ "اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ انسان کے ابتدائی عمران و تمدن کے تصور کی "اعلی ترین ہستی" فی الحقیقت توحیدی اعتقاد کا خدائے واحد تھا اور انسان کا دینی عقیدہ جو اس سے ظہور پذیر ہوا وہ پوری طرح ایک توحیدی دین تھا۔ یہ حقیقت اب اس درجہ نمایاں ہوچکی ہے کہ ایک سرسری نظر تحقیق بھی اس کے لیے کفایت کرے گی۔ نسل انسانی کے قدیم پستہ قد قبائل میں سے اکثروں کی نسبت یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ابتدائی عہد کے جنگلی قبیلوں کے جو حالات روشنی میں آئے ہیں اور کرنائی، کلین، اور جنوب مشرقی، آسٹریلیا کے پائن قبیلوں کی نسبت جس قدر تاریخی مواد مہیا ہوا ہے ان سب کی تحقیقات ہمیں اس نتیجہ تک پہنچاتی ہے۔ ارکٹیک تہذیب کے قبیلوں کے روایتی آثار اور شمالی امریکہ کے قبائل کے دینی تصورات کی چھان بین نے بھی بالآخر اسی نتیجہ کو نمایاں کیا" (دی اور یجین اینڈ گروتھ آف ریلیجین صفحہ 262) زمانہ حال کے نظارے نے اب اس مسئلہ کا موسوعاتی (Pantologic) طریق نظر سے مطالعہ کیا ہے اور قدیم معلومات و مباحبث کی تمام شاخیں جمع کر کے مجموعی نتائج نکالے ہیں۔ ضروری ہے کہ اس سلسلہ کی بعض جدید تحقیقات پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے کیونکہ ابھی وہ اس درجہ شائع نہیں ہوئی ہیں کہ عام طور پر نظر و مطالعہ میں آچکی ہوں۔ آسٹریلیا اور جزائر کے وحشی قبائل اور مصر کے قدیم ترین آثار کی جدید تحقیقات : آسٹریلیا اور جزائر بحر محیط کے وحشی قبائل ایک غیر معین قدامت سے اپنی ابتدائی ذہنی طفولیت کی زندگی بسرت کرتے رہے۔ زندگی وہ معیشت کی وہ تمام ترقی یافتہ کڑیاں جو عام طور پر انسانی جماعتوں کے ذہنی ارتقا کا سلسلہ مربوط کرتی ہیں یہاں یکسر مفود رہیں۔ ابتدائی عہد کی بشری جمعیت کے تمام جسمانی اور دماغی خصائص ان کی قبائلی زندگی میں دیکھے جاسکتے تھے۔ ان کے تصور اس درجہ محدود تھے کہ اوہاد و خرافات میں کسی طرح کا ارتقائی نظم نہیں پایا جاتا۔ تاہم ان کا ایک اعتقادی تصور بالکل واضح تھا۔ ایک بالا تر ہستی ہے جس نے ان کی زمین اور ان کا آسمان پیدا کیا اور ان کا مرنا اور جینا اسی کے قبضہۂتصرف میں ہے۔ مصر کے قدیم باشندوں کی صدائیں آٹھ ہزار برس پیشتر تک کی ہمارے کانوں سے ٹکرا چکی ہیں۔ قدیم مصر تصورات کا پورا سلسلہ اپنی عہد بعہد کی تبدیلیوں کے ساتھ ہمارے سامنے ابھر آیا ہے۔ ہمیں صاف نظر آرہا ہے کہ ایک خدا کی پرستش کا تصور اس سلسلہ میں بعد کو نہیں ابھرا بلکہ سلسلہ کی سب سے زیادہ پرانی کڑی ہے۔ مصر کے وہ تمام معبود جن کے مرقعوں سے اس کے مشہور عالم ہیکلوں اور مناروں کی دیورایں منقش کی گئی ہیں اس قدیم ترین عہد میں اپنی کوئی نمود نہیں رکھتے تھے۔ جب صرف ایک "اوسیریز" کی ان دیکھی ہستی کا اعتقاد دریائے نیل کی تمام آباد وادیوں پر چھایا ہوا تھا۔ (مردہ کی کتاب قدیم مصری تصورات کا سب سے زیادہ مرتب اور منضبط نوشتہ ہے۔ مصریات کے مشہور محقق ڈاکٹر بج (Budge) کی رائے میں یہ سب سے زیادہ قدیم فکر مواد ہے جو مصری آثار نے ہمارے حوالہ کیا ہے۔ یہ خود اتنی ہی پرانی ہے جتنا پرانا مصری تمدن ہے،۔ لیکن جو تصورات اس میں جمع کیے گئے ہیں۔ وہ مصری تمدن سے بھی زیادہ قدیم ہیں۔ وہ اتنے قدیم ہیں کہ ہم ان کی قدامت کی کوئی تاریخ معین نہیں کرسکتے۔ اس نوشتہ میں "اوسیریز" کے یہ صفات ہمیں ملتے ہیں : معبود اعطم۔ الخیر۔ ازلی پادشاہ۔ آخرت کا مالک) دجلہ وفرات کی وادیوں کی قدیم آبادیوں اور خدا کی ہستی کا توحیدی تصور : پہلی عالمگیر جنگ کے بعد عراق کے مختلف حصوں میں کھدائی کی جو نئی مہمیں شروع کی گئی تھیں۔ اور جو مودہ جنگ کی وجہ سے ناتمام رہ گئیں ان کے انکشافات نے اس مسئلہ کے لیے نئی روشنیاں بہم پہنچائی ہیں۔ اب اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کیا جاتا کہ دریائے نیل کی طرح دجلہ ور فرات کی وادیوں میں بھی جب انسان پہلے پہل اپنے خدا کو پکارا و وہ بہت سی ہستیوں میں بٹا ہوا نہیں تھا بلکہ ایک ہی ان دیکھی ہستی کی صورت میں نمایاں ہوا تھا۔ کالڈیا کے سومیری اور اکادی قبائل جن انسانی نسلوں کے وارث ہوئے تھے وہ شمس یعنی سورج اور نانعار یعنی چاند کی پرستش نہیں کرتے تھے بلکہ اس ایک ہی لازوال ہستی کی"جس نے سورج اور چاند اور تمام چمکدار ستاروں کو بنایا ہے"۔ مہنجودارو کا خدائے وحدا "اون" ہندوستان میں "مہنجودارو" کے آثار ہمیں آریاؤں کے عہد ورود سے بھی آگے لے جاتے ہیں۔ ان کے مطالعہ و تحقیق کا کام ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔ تاہم ایک حقیقت بالکل واضح ہوگئی ہے۔ اس قدیم ترین انسانی بستی کے باشندوں کا بنیادی تصور توحید الٰہی کا تصور تھا۔ اصنام پرستانہ تصور نہ تھا۔ وہ اپنے یگانہ خدا کو "اون" کے نام سے پکارتے تھے۔ جس کی مشابہت ہمیں سنسکرت کے لفظ "اندوان" میں میں مل جاتی ہے۔ اس یگانہ ہستی کی حکومت سب پر چھائی ہوئی ہے۔ طاقت کی تمام ہستیاں اسی کے ٹھہرائے ہوئے قانون کے ماتحت کام کر رہی ہیں اس کی صفت "ویدوکن" ہے۔ یعنی ایسی ہستی جس کی آنکھیں کبھی غافل نہیں ہوسکتیں "لاتاخذہ سنۃ ولا نوم"۔ اللہ کی یگانہ اور ان دیکھی ہستی کا قدیم سامی تصور : سامی قبائل کا اصلی چشمہ صحرائے عرب کے بعض شاداب علاقے تھے۔، جب اس چشمہ میں نسل انسانی کا پانی بہت بڑھ جاتا تو اطراف میں پھیلنے لگتا۔ یعنی قبائل کے جتھے عرب سے نکل کر اطراف و جوانب کے ملکوں میں منتشر ہونے لگتے اور پھر چند صدیوں کے بعد نیا رنگ روپ اور نئے نام اختیار کرلیتے۔ شاید انسانی قبائل کا انشعاب کرہ ارضی کے دو مختلف حصوں میں بیک وقت جاری رہا اور زمانہ مابعد کی مختلف قوموں اور تمدنوں کا بنیادی مبدء بنا۔ صحرائے گوبی کے سرچشمے سے وہ قبائل نکلے جو ہندی۔ یورپی (اندویورپین) آریاؤں کے نام سے پکارے گئے۔ صحرائے عرب سے وہ قبائل نکلے جن کا پہلا نام سامی پڑا اور پھر یہ نام بے شمار ناموں کے ہجوم میں گم ہوگیا۔ تاریخ کی موجودہ معلوام اس حد تک پہنچ کر رک گئی ہیں اور آگے کی خبر نہیں رکھتیں۔ عرب قبائل کا یہ انشعاب بتدریج مغربی ایشیا اور قریبی افریقہ کے تمام دور دراز حصوں تک پھیل گیا تھا۔ فلسطین (شام) مصر، نوبیا، عراق، اور سواحل خلیج فارس سب ان کے دائرہ انشعاب میں آگئے تھے۔ عاد، ثمود، عمالقہ، ہکسوس، موابی، آشوری، آکادی، سومیری، عیلامی، آرامی، اور عبرانی وغیرہم مختلف مقاموں اور مختلف عہدوں کی قوموں کے نام ہیں مگر دراصل سب ایک ہی قبائلی سرچشمہ سے نکلے ہوئے ہیں یعنی عرب سے۔ اب جدید سامی اثریات کے مطالعہ سے جو ان تمام قوموں سے تعلق رکھتی ہیں ایک حقیقت بالکل واضح ہوگئی ہے۔ یعنی ان تمام قوموں میں ایک ان دیکھے خدا کی ہستی کا اعتقاد موجود تھا۔ اور وہ "ال۔ الاہ" یا "اللہ " کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہی "الاہ" ہے جس نے کہیں "ایل" کی صورت اختیار کی، کہیں "الوہ" کی اور کہیں "الاہیا" کی۔ سرحد حجاز کی وادی عقبہ اور شمالی شام کے راس شمر کے جو آثار گزشتہ جنگ کے بعد منکشف ہوئے ان سے یہ حقیقت اور زیادہ آشکارا ہوگئی ہے مگر یہ موقع تفصیل کا نہیں۔ انسان کی پہلی راہ ہدا یت کی گھی، گمراہی بعد کوئی آئی : بہرحال بیسویں صدی کی علمی جستجو اب ہمیں جس کی طرف لے جا رہی ہے وہ انسان کا قدیم ترین توحیدی اور غیر اصنامی اعتقاد ہے۔ اس سے زیادہ اس کے تصورات کی کوئی بات پرانی نہیں۔ اس نے اپنے عہد طفولیت میں ہوش و خرد کی آنکھیں جونہی کھولی تھیں ایک یگانہ ہستی کا اعتقاد اپنے اندر موجود پایا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے قدم بھٹکنے لگے اور بیرونی اثرات کی جولانیاں اسے نئی نئی صورتوں اور نئے نئے ڈھنگوں سے آشنا کرنے لگیں۔ اب ایک سے زیادہ مافوق الفطرت طاقتوں کا تصور نشوونما پانے لگا اور مظاہر فطرت کے بے شمار جلوے اسے اپنی طرف کھینچنے لگے۔ یہاں تک کہ پرستش کی ایسی چوکھٹیں بننا شروع ہوگئیں جنہیں اس کی جبین نیاز چھو سکتی تھی اور تصورات کی ایسی صورتیں ابھرنے لگیں جو اس کے دیدہ صورت پرست کے سامنے نمایاں ہوسکتی تھیں۔ یہیں اسے ٹھوکر لگی لیکن راہ ایسی تھی کہ ٹھوکر سے بچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کمند کو تہ و بازوئے سست و بام بلند بمن حوالہ و نومیدیم گنہ گیرند پس معلوم ہوا کہ اس راہ میں ٹھوکر بعد کو لگی۔ پہلی حالت ٹھوکر کی نہ تھی۔ راہ راست پر گام فرسائیوں کی تھی : من ملک بودم و فردوس بریں جائم بود آدم آورد دریں خانہ خراب آبادم اگر اس صورت حال کو گمراہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ پہلی حالت جو انسان کو پیش آئی تھی وہ گمراہی کی نہ تھی، ہدایت کی تھی۔ اس نے آنکھیں روشنی میں کھولی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ تاریکی پھیلنے لگی ! دینی نوشتوں کی شہادت اور قرآن کا اعلان : زمانہ حال کی علمی تحقیقات کا یہ نتیجہ ادیان عالم کے مقدس نوشتوں کی تصریحات کے عین مطابق ہے۔ مصر، یونان، کالڈیا، ہندوستان، چین، ایران، سب کی مذہبی روایتیں ایک ایسے ابتدائی عہد کی خبر دیتی ہیں جب نوع انسانی گمراہی اور غمناکی سے آشنا نہیں ہوئی تھی اور فطری ہدایت کی زندگی بسر کرتی تھی۔ افلاطون نے کریطیاس (Critias) میں آبادی عالم کی جو حکایت درج کی ہے اس میں اس اعتقاد کی پوری جھلک موجود ہے اور طیماوس (Timaeus) کی حکایت جو ایک مصری پجاری کی زبانی ہے مصری روایت کی خبر دیتی ہے۔ تورات کی کتاب پیدائش نے آدم کا قصہ بیان کیا ہے۔ اس قصہ میں آدم کی پہلی زندگی ہدایت کی بہشتی زندگی تھی پھر لغزش ہوئی اور بہشتی زندگی مفقود ہوگئی اس قصہ میں بھی یہ اصل کام کررہی ہے کہ یہاں پہلا دور فطری ہدایت کا تھا۔ انحراف و گمراہی کی راہیں بعد کو کھلیں۔ قرآن نے تو صاف صاف اعلان کردیا ہے : "ومان کان الناس الا امۃ واحدۃ فاخلتفوا : ابتدا میں تمام انسان ایک ہی گروہ تھے (یعنی الگ الگ راہوں میں بھٹکے ہوئے نہ تھے) پھر اختلاف میں پڑگئے " (10:، 19) دوسری جگہ مزید تشریح کی : "کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللہ النبیین مبشرین و منذرین وانزل معہم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ : ابتدا میں تمام انسانوں کا ایک ہی گروہ تھا (یعنی فطری ہدایت کی ایک ہی راہ پر تھے۔ پھر اس کے بعد اختلاف پیدا ہوگئے) پس اللہ نے ایک کے بعد ایک نبی مبعوث کیے۔ وہ نیک عملی کے نتیجوں کی خوشخبری دیتے تھے۔ بد عملی کے نتیجوں سے متنبہ کرتے تھے۔ نیز ان کے ساتھ نوشتے نازل کیے۔ تاکہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کرنے لگے ہیں ان کا فیصلہ کردیں"۔ (2:، 213) ارتقائی نظریہ خدا کی ہستی کے اعتقاد میں نہیں، مگر اس کی صفات کے تصورات کے مطالعہ میں مدد دیتا ہے : پس خدا کی ہستی کے عقیدے کے بارے میں انیسویں صدی کا ارتقائی نظریہ اب اپنی علمی اہمیت کھو چکا ہے اور بحث و نظر میں بہت کم مدد دے سکتا ہے۔ البتہ جہاں تک انسان کے ان تصوروں کا تعلق ہے جو خدا کی صفات کی نقش آرائیاں کرتے رہے ہمیں ارتقائی نقطہ خیال سے ضرور مددملتی ہے۔ کیونکہ بلاشبہ یہاں تصورات کے نشو وارتقا کا ایک ایسا سلسلہ موجود ہے جس کی ارتقائی کڑیاں ایک دوسرے سے الگ کی جاسکتی ہیں اور نچلے درجوں سے اونچے درجہ کی طرف ہم بڑھ سکتے ہیں۔ خدا کی ہستی کا اعتقاد انسان کے ذہن کی پیداوار نہ تھا کہ ذہنی تبدیلیوں کے ساتھ وہ بھی بدلتا رہتا۔ وہ اس کی فطرت کا ایک وجدانی احساس تھا اور وجدانی احساسات میں نہ تو ذہن و فکر کے مؤثرات مداخلت کرسکتے ہیں نہ باہر کے اثرات سے ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ لیکن انسان کی عقل، ذات مطلق کے تصور سے عاجز ہے۔ وہ جب کسی چیز کا تصور کرنا چاہتی ہے تو گو تصور ذات کا کرنا چاہے لیکن تصور میں صفات و عوارض ہی آتے ہیں اور صفات ہی کے جمع و تفرقہ سے وہ ہر چیز کا تصور آراستہ کرتی ہے۔ پس جب فطرت کے اندرونی جذبہ نے ایک بالا تر ہستی کے اعتراف کا ولولہ پیدا کیا تو ذہن نے چاہا، اس کا تصور آراستہ کرے۔ لیکن جب تصور کیا تو یہ اس کی ذات کا تصور نہ تھا یہیں سے خدا پرستی کے فطری جذبہ میں ذہن و کفر کی مداخلت شروع ہوگئی۔ عقل انسانی کی درماندگی اور صفات الٰہی کی صورت آرائی : عقل انسانی کا ادراک محسوسات کے دائرے میں محدود ہے۔ اس لیے اس کا تصور اس دائرے سے باہر قدم نہیں نکال سکتا۔ وہ جب کسی ان دیکھی اور غیر محسوس چیز کا تصور کرے گی تو ناگریز ہے کیہ تصور میں وہی صفات آئیں جنہیں وہ دیکھتی اور سنتی ہے اور جو اس کے حاسہ ذوق و لمس کی دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ پھر اس کے ذہن و تفکر کی جتنی بھی رسائی ہے بیک دفعہ ظہور میں نہیں آئی ہے بلکہ ایک طول طویل عرصہ کے نشو وارتقا کا نتیجہ ہے۔ ابتدا میں اس کا ذہن عہد طفولیت میں تھا۔ اس لیے اس کے تصورات بھی اسی نوعیت کے ہوتے تھے۔ پھر جوں جوں اس میں اور اس کے ماحول میں ترقی ہوتی گئی اس کا ذہن بھی ترقی کرتا گیا اور ذہن کی ترقی و تزکیہ کے ساتھ اس کے تصورات میں بھی شائستگی اور بلندی آتی گئی۔ اس صورت حلا کا نتیجہ یہ تھا کہ جب کبھی ذہن انسانی نے خدا کی صورت بنانی چاہی تو ہمیشہ ویسی ہی بنائی جیسی صورت خود اس نے اور اس کے احوال و ظروف نے پیدا کرلی تھی۔ جوں جوں اس کا معیار فکر بدلتا گیا وہ اپنے معبود کی شکل و شباہت بھی بدلتا گیا۔ اسے اپنے آئینہ تفکر میں ایک صورت نظر آتی تھی۔ وہ سمجھتا تھا یہ اس کے معبود کی صورت ہے۔ حالانکہ وہ اس کے معبود کی صورت نہ تھی خود اسی کے ذہن و صفات کا عکس تھا۔ فکر انسانی کی سب سے پہلی درماندگی یہی ہے جو اس راہ میں پیش آئی ! حرم جویاں درے رامی پرستند فقیہاں دفترے را می پرستند برافگن پردہ تا معلوم گردد کہ یاراں دیگرے را می پرستند یہی درمانگی ہے جس سے نجات دلانے کے لیے وحی الٰہی کی ہدایت ہمیشہ نمودار ہوتی رہی۔ انبیائے کرام (علیم السلام) کی دعتو کی ایک بنیادی اصل یہ رہی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ خدا پرستی کی تعلیم ویسی ہی شکل و اسلوب میں دی جیسی شکل و اسلوب کے فہم و تحمل کی استعداد مخاطبوں میں پیدا ہوگئی تھی۔ وہ مجمع انسانی کے معلوم ومربی تھے اور معلم کا فرض ہے کہ متعلموں میں جس درجہ کی استعداد پائی جائے اسی درجہ کا سبق بھی دے۔ پس انبیائے کرام نے بھی وقتا فوقتا خدا کی صفات کے لیے جو پیرایہ تعلیم اختیار کیا وہ اس سلسلہ ارتقا سے باہر نہ تھا۔ بلکہ اسی کی مختلف کڑیاں مہیا کرتا ہے۔ ارتقائے تصور کے نقاط ثلاثہ : اس سلسلہ کی تمام کڑیوں پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں اور ان کے فکری عناصر کی تحلیل کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ان کی بے شمار نوعیتیں قرار دی جاسکتی ہیں لیکن ارتقائی نقطے ہمیشہ تین ہی رہے اور انہی سے اس سلسلہ کی ہدایت و نہایت معلوم کی جاسکتی ہے : (1)۔ تجسم سے تنزیہہ کی طرف : (تجسم سے مقصود یہ ہے کہ خدا کی نسبت ایس تصور قائ8 م کرنا کہ وہ مخلوق کی طرح جسم و صورت رکھتا ہے۔ تشبہ سے مقصود یہ ہے کہ ایسی صفات تجویز کرلیں جو مخلوقات کی صفات سے مشابہ ہوں۔ تنزیہہ سے مقصود یہ ہے کہ ان تمام باتوں سے جو اسے مخلوقات سے مشابہ کرتی ہوں اسے مبرا یقین کرنا۔ انگریزی میں تجسم کے لیے ان تھروپو مارفزم (Anthroporphism) اور تشبہ کے لیے ان تھراپوافیوازم (Anthropophuism) کی مصطلحات استعمال کرتے ہیں) (2)۔ تعدد و اشراک (Polytheism) سے توحید (Monotheism) کی طرف۔ (3) صفات قہر و جلال سے صفات رحمت و جمال کی طرف۔ یعنی تجسم اور صفات قہریہ کا تصور اس کا ابتدائی درجہ ہے اور تنزہ اور صفات رحمت و جمال سے اتصاف اعلی و کامل درجہ۔ جو تصور جس قدر ابتدائی اور ادنی درجہ کا ہے، اتنا ہی تجسم اور صفات قہریہ کا عنصر اس میں زیادہ ہے۔ جو تصور جس قدر زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اتنا ہی زیادہ منزہ اور صفات رحمت و جلال سے متصف ہے۔ انسان کا تصور صفات قہریہ کے تاثر سے کیوں شروع ہوا؟ انسان کا تصور صفات قہریہ کے تخیل سے کیوں شروع ہوا؟ اس کی علت واضح ہے۔ فطرت کائنات کی عمیر، تخریب کے نقاب میں پوشیدہ ہے۔ انسانی فکر کی طفولیت تعمیر کا حسن نہ دیکھ سکی۔ تخریب کی ہوناکیوں سے ہم گئی۔ تعمیر کا حسن و جمال دیکھنے کے لیے فہم و بصیرت کی دور رس نگاہ مطلوب تھی اور وہ ابھی اس کی آنکھوں نے پیدا نہیں کی تھی۔ دنیا میں ہر چیز کی طرح ہر فعل کی نوعیت بھی اپنا مزاج رکھتی ہے۔ بناؤ ایک ایسی حالت ہے جس کا مزاج سر تا سر سکون اور خاموشی ہے اور بگاڑ ایک ایسی حالت ہے کہ اس کا مزاج سرتاسر شورش اور ہولناکی ہے۔ بناؤ ایجاب ہے، نظم ہے، جمع و ترتیب ہے اور بگاڑ سلب ہے، برہمی ہے، تفرقہ و اختلال ہے۔ جمع و نظم کی حالت ہی سکون کی حالت ہوتی ہے اور تفرقہ و برہمی کی حالت ہی شورش و انفجار کی حالت ہے۔ دیوار جب بنتی ہے تو تمہیں کوئی شورش محسوس نہیں ہوتی لیکن جب گرتی ہے تو دھماکا ہوتا ہے اور تم بے اختیار چونک اٹھتے ہو۔ اس صورت حال کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ حیوانی طبیعت سلبی افعال سے فوراً متاثر ہوجاتی ہے کیونکہ ان کی نمود میں شورش اور ہولناکی ہے لیکن ایجابی افعال سے متاثر ہونے میں دیر لگاتی ہے کیونکہ ان کا حسن و جمال یکایک مشاہدہ میں نہیں آجاتا اور ان کا مزاج شورش کی جگہ خاموشی اور سکون ہے۔ فطرت کے سلبی مظاہر کی قہرمانی اور ایجابی مظاہر کا حسن و جمال : اسی بنا پر عقل انسانی نے جب صفات الٰہی کی صورت آرائی کرنی چاہی تو فطرت کائنات کے سلبی مظاہر کی دہشت سے فوراً متاثر ہوگئی کیونکہ زیادہ نمایاں اور پرشور تھے اور ایجابی و تعمیری حقیقت سے متاثر ہونے میں بہت دیر لگ گئی کیونکہ ان میں شورش اور ہنگامہ نہ تھا۔ بادلوں کی گرج، بجلی کی کڑک، آتش فشاں پہاڑوں کا انفجار، زمین کا زلزلہ، آسمان کی ژالہ بار، دریا کا سیلاب، سمندر کا تلاطم، ان تمام سلبی مظاہر میں اس کے لیے رعب و ہیبت تھی اور اسی ہیبت کے اندر وہ ایک غضبناک خدا کی ڈراؤنی صورت دیکھنے لگا تھا۔ اسے بجلی کی کڑک میں کوئی حسن محسوس نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ بادلوں کی گرج میں کوئی شان محبوبیت نہیں پاسکتا تھا۔ وہ آتش فشاں پہاڑوں کی سنگ باری سے پیار نہیں کرسکتا تھا اور اس کی عقل ابھی خدا کے انہی کاموں سے آشنا ہوئی تھی۔ انسان پر شیفتگی سے پہلی دشہت طاری ہوئی : خود اس کی ابتدائی معیشت کی نوعیت بھی ایسی ہی تھی کہ انس و محبت کی جگہ خوف و وحشت کے جذبات برانگیختہ ہوتے۔ وہ کمزور اور نہتا تھا اور دنیا کی ہر چیز اسے دشمنی اور ہلاکت پر تلی نظر آتی تھی۔ دلدل کے مچھروں کے جھنڈ چاروں طرف منڈلا رہے تھے۔ زہریلے جانور ہر طرف رینگ رہے تھے اور درندوں کے حملوں سے ہر وقت مقابل رہنا پڑتا تھا۔ سر پر سورج کی تپش بے پناہ تھی اور چاروں طرف موسم کے اثرات ہولناک تھے۔ غرض کہ اس کی زندگی سر تا سر جنگ اور محنت تھی اور اس ماحول کا قدرتی نتیجہ تھا کہ اس کا ذہن خدا کا تصور کرتے ہوئے خدا کی ہلاکت آفرینیوں کی طرف جاتا رحمت و فیضان کا ادراک نہ کرسکتا۔ بالآخر صفات رحمت و جمال کا اشتمال : لیکن جوں جوں اس میں اور اس کے ماحول میں تبدیلی ہوتی گئی اس کے تصور میں بھی یاس و دہشت کی جگہ امید و رحمت کا عنصر شامل ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ معبودیت کے تصور میں صفات و رحمت و جمال نے بھی ویسی ہی جگہ پالی جیسی صفات قہر وجلال کے لیے تھی۔ چنانچہ اگر قدیم اقوام کے اصنام پرستانہ تصورات کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ ان کی ابتدا ہر جگہ صفات قہر و غضب کے تصور ہی سے ہوئی ہے اور پھر آہست آہستہ رحمت و جمال کی طرف قدم اٹھا ہے۔ آخری کڑیاں وہ نظر آئیں گی جن میں قہر و غضب کے ساتھ رحمت و جمال کا تصور بھی مساویانہ حیثیت سے قائم ہوگیا ہے۔ مثلاً قہر وہلاکت کے دیوتاؤں اور قوتوں کے ساتھ زندگی، رزق، دولت اور حسن و علم کے دیوتاؤں کی بھی پرستش شروع ہوگئی ہے۔ یونان کا علم الاصنام اپنے لطافت تخیل کے لحاظ سے تمام اصنامی تخیلات میں اپنی خاص جگہ رکھتا ہے لیکن اس کی پرستش کے بھی قدیم معبود وہی تھے جو قہر و غضب کی خوفناک قوتیں سمجھی جاتی تھیں۔ ہندوستان میں اس وقت تک زندگی اور بخشش کے دیوتاؤں سے کہیں زیادہ ہلاکت کے دیوتاؤں کی پرستش ہوتی ہے۔ ظہور قرآن کے وقت دنیا کے عام تصورا : بہرحال ہمیں غور کرنا چاہیے کہ قرآن کے ظہور کے وقت صفات الٰہی کے عام تصورات کی نوعیت کیا تھی اور قرآن نے جو تصور پیش کیا اس کی حیثیت کیا ہے؟ ظہور قرآن کے وقت پانچ دینی تصور فکر انسانی پرچھائے ہوئے تھے : چینی، ہندوستانی، مجوسی، یہودی اور مسیحی۔ (1)۔ چینی تصور : دنیا کی تمام قدیم قوموں میں چینیوں کی یہ خصوصیت تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ان کے تصور الوہیت نے ابتدا میں جو ایک سادہ اور مبہم نوعیت اختیار کرلی تھی وہ بہت حد تک برابر قائم رہی اور زمانہ مابعد کی ذہنی وسعت پذیریاں اس میں زیادہ مداخلت نہ کرسکیں۔ تاہم تصور کا کوئی مرقع بغیر رنگ و روغن کے بن نہیں سکتا۔ اس لیے آہستہ آہستہ اس سادہ خاکے میں بھی مختلف رنگیں نمایاں ہونے لگیں اور بالآخر ایک رنگین تصویر متشکل ہوگئی۔ چین میں قدیم زمانے میں سے مقامی خداؤں کے ساتھ ایک "آسمانی" ہستی کا اعتقاد بھی موجود تھا۔ ایک ایسی بلند اور عظیم ہستی جس کی علویت کے تصور کے لیے ہم آسمان کے سوا اور کسی طرف نظر نہیں اٹھا سکتے۔ آسمان حسن و بخشائش کا بھی مظہر ہے۔ قہر و غضب کی بھی ہولناکی ہے۔ اس کا سورج روشنی اور حرارت بخشتا ہے، اس کے ستارے اندھیری راتوں میں قدنیلیں روشن کردیتے ہیں، اس کی بارش زمین کو طرح طرح کی روئیدگیوں سے معمور کردیتی ہے، لیکن اس کی بجلیاں ہلاکت کا بھی پیام ہیں اور اس کی گرج دلوں کو دہلا بھی دیتی ہے۔ اس لیے آسمانی خدا کے تصور میں بھی دونوں صفتیں نمودار ہوئیں۔ ایک طرف اس کی جود و بخشائش ہے، دوسری طرف اس کا قہر و غضب ہے۔ چینی چاعری کی قدیم کتاب میں ہم قدیم ترین چینی تصورات کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں جابجا ہمیں ایسے مخاطبات ملتے ہیں جن میں آسمانی اعمال کی، ان متضاد نمودوں پر حیرانی و سرگشتگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ کیا بات ہے کہ تیرے کاموں میں یکسانی اور ہم آہنگی نہیں؟ تو زندگی بھی بخشتا ہے اور تیرے پاس ہلاکت کی بجلیاں بھی ہیں۔ یہ "آسمان" چینی تصور کا ایک ایسا بنیادی عنصڑ بن گیا کہ چینی جمعیت آسمانی جمعیت اور چینی مملکت آسمانی مملکت کے نام سے پکاری جانے لگی۔ رومی جب پہلے پہل چین سے آشنا ہوئے تو انہیں ایک "آسمانی مملکت" ہی کی خبر ملی تھی۔ اس وقت سے (Coelum) کے مشتقات کا چین کے لیے استعمال ہونے لگا۔ یعنی آسمان والے اور "آسمانی" اب بھی انگریزی میں چین کے باشندوں کے لیے مجازا سلسٹیل (Celestial) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی آسمانی ملک کے باشندے۔ اس آسمانی ہستی کے علاوہ گزرے ہوئے انسانوں کی روحیں بھی تھیں۔ جنہیں دوسرے عالم میں پہنچ کر تدبیر و تصرف کی طاقتیں حاصل ہوگئی تھیں اور اس لیے پرستش کی مستحق سمجھی گئی تھیں۔ ہر خاندان اپنی معبود روحیں رکھتا تھا اور ہر علاقہ اپنا مقامی خدا۔ لاؤتزو اور کنگ فوزی کی تعلیم : سنہ مسیحی سے پانچ سو برس پہلے لاؤ۔ تزو (Lao-Tzu) اور کنگ فوزی (King-fu-Tse) کا ظہور ہوا۔ کنگ فوزی نے ملک کو عملی زندگی کی سعادتوں کی راہ دکھائی اور معاشرتی حقوق و فرائض کی ادائیگی کا ایک قانون مہیا کردیا لیکن جہاں تک خدا کی ہستی کا تعلق ہے۔ "آسمان" کا قدیمی تصور بدستور قائم رہا اور اجداد پرستی کے عقائد نے اس کے ساتھ مل کر ایک ایسی نوعیت پیدا کرلی گویا آسمانی خدا تک پہنچنے کا ذریعہ گزری ہوئی روحوں کا وسیلہ اور تشفع ہے۔ روحانی تصورات میں وسیلہ کا اعتقاد ہمیشہ عابدانہ پرستش کی نوعیت پیدا کرلیتا ہے چنانچہ یہ توسل بھی عملاً تعبد تھا اور ہر طرح کے دینی اعمال و رسوم کا مرکزی نقطہ بن گیا تھا۔ ("کنگ فوزی" فارسی تلفظ ہے۔ صحیح چینی لفظ "کونگ۔ فو۔ تسی" ہے۔ ایرانیوں نے اسے زیادہ صحت کے ساتھ نقل کیا۔ یعنی صرف اتنی تبدیلی کی کہ "فوتسی" کو "فوزی" کردیا۔ لیکن یورپ کی زبانوں نے اسے یک قلم مسخ کر کے "کنفیوشیس" (Confuocius) بندا دیا اور اس کی آواز اصل آواز سے اس درجہ مختلف ہوگئی کہ ایک چینی سن کر حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کس چیز کا نام ہے اور کس ملک کی بولی ہیں؟) ہندوستان اور یونان میں دیوتاؤں کے تصور نے نشوونما پائی تھی جو خدائی کی ایک بالاتر ہستی کے ساتھ کارخانہ عالم کے تصرفات میں شرکت رکھتے تھے۔ چینی تصور میں یہ خانہ بزرگوں کی روحوں نے بھرا اور اس طرح اشراک اور تعدد کے تصور کی پوری نقش آرائی ہوگئی۔ کنگ فوزی کے ظہور سے پہلے قربانیوں کی رسم عام طور پر رائج تھی۔ کنگ فوزی نے اگرچہ ان پر زور نہیں دیا لیکن ان سے تعرض بھی نہیں کیا۔ چنانچہ وہ چینی مندروں کا تقاضا برابر پورا کرتی رہیں۔ قربانیوں کے عمل کے پیچھے طلب بخشش اور جلب تحفظ دونوں کے تصور کام کرتے تھے۔ قربانیوں کے ذریعہ ہم اپنے مقاصد بھی حاصل کرسکتے ہیں اور خدا کے قہر و غضب سے محفوظ بھی ہوجا سکتے ہیں۔ پہلی غرض کے لیے وہ نذر ہیں۔ دوسری غرض کے لیے فدیہ ! لاؤ۔ تزو نے "تاؤ" یعنی طریقت کے مسلک کی بنیاد ڈالی۔ اسے چین کا تصور اور ویدانت سمجھنا چاہیے۔ تاؤ نے چینی زندگی کو روحانی استغراق اور داخلی مراقبہ کی راہوں سے آشنا کیا اور مذہبی اور اخلاقی تصورات میں ایک طرف گہرائی اور وقت آفرینی پیدا ہوئی دوسری طرف لطافت فکر اور رقت خیال کے نئے نئے دروازے کھلے۔ لیکن تصوف ملک کا عام دینی تصور نہیں بن سکتا تھا۔ اس کی محدود جگہ چین میں بھی وہی رہی جو ویدانت کی ہندوؤں میں اور تصوف کی مسلمانوں میں رہی ہے۔ چین کا ثمنی تصور : اس کے بعد وہ زمانہ آیا جب ہندوستان کے شمنی مذہب یعنی بدھ مذہب کی چین میں اشاعت ہوئی۔ یہ مہایاما بدھ مذہب تھا جو مذہب کے اصلی مبادیات سے بہت دور جا چکا تھا اور جس نے تبدل پذیری کی ایسی بے روک لچک پیدا کرلی تھی کہ جس شکل و قطع کا خانہ ملتا تھا ویسا ہی جسم بنا کر اس میں سما جاتا تھا۔ یہ جب چین، کوریا اور جاپان میں پہنچا تو اسے ہندوستان اور سیلون سے مختلف قسم کی فضا ملی اور اس نے فوراً مقامی وضع و قطع اختیار کرلی۔ بدھ مذہب کی نسبت یقین کیا جاتا ہے کہ خدا کی ہستی کے تصور سے خالی ہے۔ لیکن پیروان بدھ نے خود بدھ کو خدا کی جگہ دے دی اور اس کی پرستش کا ایک ایسا عالمگیر نظام قائم کردیا جس کی کوئی دوسری نظیر اصنامی مذاہب کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ چنانچہ چین، کوریا، اور جاپان کی عبادت گاہیں بھی اب اس نئے معبود کے بتوں سے معمور ہوگئیں۔ (سنسکرت میں "شمن" زاہد اور تارک الدنیا کو کہتے ہیں۔ بدھ مذہب کے تارک الدنیا بھکشو اس لقب سے پکارے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ تمام پیروان بدھ کو "شمنی" کہنے لگے۔ اسی شمنی کو عربوں نے "سمنی " بنا لیا اور وسط ایشیا کے باشندوں "شامانی"۔ چنانچہ زکریا رازی، البیرونی، اور ابن الندیم وغیرہم نے بدھ مذہب کا ذکرسمنیہ ہی کے نام سے کیا ہے۔ البیرونی بدھ مذہب کی عالمگیر اشاعت کی تاریخ کی بھی خبر رکھتا تھا۔ چنانچہ کتاب الہند کی پہلی فصل میں اس طرف اشارات کیے ہیں۔ چنگیز خاں کی نسبت یہ تصریح ملتی ہے کہ وہ شامانی مذہب کا پیرو تھا۔ یعنی بدھ مذہب کا۔ چونکہ شامانی اور بدھ مذہب کا ترادف واضح نہیں ہوا تھا اس لیے انیسویں صدی کے بعض یورپی مؤرخوں کو طرح طرح کی غلط فہمیاں ہوئیں اور وہ اس کا صحیح مفہوم متعین نہ کرسکے۔ یہ غلط فہمی یورپ کے عام اہل قلم میں آج بھی موجود ہے۔ شمالی سائبیریا اور چینی ترکستان کے ہم سایہ علاوں کے تورانی قبائل اپنے مذہبی پیشواؤں کو (جو تبت کے لاماؤں کی طرح ملکی پیشوائی بھی رکھتے ہیں) شامان کہتے ہیں۔ سوویت روس کی حکومت آج کل ان کی تعلیم وتربیت کا سروسامان کر رہی ہے۔ یہ لوگ بھی بلاشبہ بدھ مذہب کے پیرو ہیں لیکن ان کا بدھ مذہب منگولیوں کے محرف مذہب کی بھی ایک مسخ شدہ صورت ہے اس لیے اصلیت کی بہت کم جھلک باقی رہ گئی ہے اور اسی لیے ان کی مذہبی اصلیت کے بارے میں آج کل کے مصنف حیرانی ظاہر کر رہے ہیں۔ انگریزی میں انہی تورانی قبائل کے مذہب کی نستب شے منزم (Shamanism) کی ترکیب رائج ہوگئی ہے اور جادگری کے اعمال و اثرات کو (Shamanic) اور (Shamanislic) وغیرہ سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔ یہ "شمین" بھی وہی "شامانی" ہی کی ایک محرف صورت ہے چونکہ ان قبائل میں جادوگری کا اعتقاد عام ہے اور وہ اپنے شامانوں سے بیماریوں میں جادو کے ٹوٹکے کراتے ہیں اس لیے جادوگری کے لیے یہ لفظ مستعمل ہوگیا ہے۔ ) (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ ملاحظہ ہو اگلی آیت میں)