سورة آل عمران - آیت 183

الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ ۗ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ نے ہم سے یہ عہد (122) لے رکھا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک کوئی قربانی نہ لائے جسے آگ جلا دے۔ آپ کہئے کہ مجھ سے پہلے تمہارے پاس انبیاء آئے جو بہت سی نشانیاں اور وہ نشانی بھی لے کر آئے جس کا تم مطالبہ کر رہے تھے، تو تم نے انہیں قتل کیوں کردیا اگر تم اپنی بات میں سچے تھے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

63: پچھلے انبیائے کرام کے زمانے میں طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کوئی جانور قربان کرتا تو اس کو کھانا حلال نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ جانور ذبح کر کے کسی میدان میں یا ٹیلے پر رکھ دیتا تھا۔ اگر اللہ تعالیٰ قربانی قبول فرماتے تو آسمان سے ایک آگ آکر اس کو قربانی کو کھا لیتی تھی۔ اس کو سوختنی قربانی کہا جاتا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں یہ طریقہ ختم کردیا گیا اور قربانی کا گوشت انسانوں کے لیے حلال کردیا گیا۔ یہودیوں نے کہا تھا کہ چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی قربانی لے کر نہیں آئے اس لیے ہم ان پر ایمان نہیں لاتے۔ چونکہ یہ محض وقت گذاری کا ایک بہانہ تھا اور حقیقت میں ایمان لانا پیش نظر نہیں تھا۔ اس لیے انہیں یاد دلایا گیا کہ ماضی میں ایسے نشانات تمہارے سامنے آئے تب بھی تم ایمان لانے کے بجائے انبیاء کرام کو قتل کرتے رہے ہو۔