مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ
اللہ مومنوں کو اس حال (119) پر نہیں چھوڑنا چاہتا ہے جس پر تم لوگ ہو، یہاں تک کہ ناپاک کو پاک سے الگ کر دے اور نہ اللہ تمہیں غیب کی باتیں بتانا چاہتا ہے، لیکن اللہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے، پس تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ، اور اگر تم ایمان لے آؤ گے اور تقوی کی راہ اختیار کرو گے تو تمہیں بڑا اجر ملے گا،
60: آیت 176 سے 178 تک اس شب ہے کا جواب دیا گیا ہے کہ اگر کافر لوگ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں تو انہیں دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی کیوں حاصل ہے؟ جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو آخرت میں تو کوئی حصہ ملنا نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں ڈھیل دئیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے یہ مزید گناہوں میں ملوث ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک وقت آنا ہے جب یہ اکٹھے عذاب میں دھر لیے جائیں گے۔ آیت 179 میں اس کے مقابل اس شب ہے کا جواب ہے کہ مسلمان کو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں، اس کے باوجود ان پر مصیبتیں کیوں آرہی ہیں؟ اس کا ایک جواب اس آیت میں یہ دیا گیا ہے کہ یہ آزمائشیں مسلمانوں پر اس لیے آرہی ہیں تاکہ مسلمانوں پر واضح ہوجائے کہ ایمان کے دعوے میں کون کھرا ہے اور کون کھوٹا؟ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس وضاحت کے بغیر نہیں چھوڑ سکتا، اور مشکلات ہی کے وقت یہ پتہ چلتا ہے کہ کون ثابت قدم رہتا ہے اور کون پھسل جاتا ہے؟ اس پر یہ سوال ہوسکتا تھا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مشکل میں ڈالے بغیر کیوں نہیں بتا دیتا؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب کی باتیں ہر ایک شخص کو نہیں بتاتا، بلکہ جتنی باتیں چاہتا ہے اپنے پیغمبر کو بتا دیتا ہے۔ اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان منافقین کی بد عملی آنکھوں سے دیکھ کر ان کے بارے میں رائے قائم کریں، اس لیے یہ آزمائشیں پیش آرہی ہیں۔ آزمائشوں کی مزید حکمت آگے آیات 185 اور 186 میں بھی بیان فرمائی گئی ہے۔