يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ
اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق (٥) تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اس کی تحقیق کرلو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی میں نقصان پہنچادو، پھر اپنے کئے پر تمہیں ندامت اٹھانی پڑے
(٣)۔ اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت (٦) ولیدب ن عقبہ بن ابی معیط کے حق میں نازل ہوئی ہے مولانا آزاد لکھتے ہیں، قبیلہ بنو مصطلق تمام احکام اسلام کا مطیع ہوچکا تھا نبی نے ولید بن عقبہ کو صدقے کا مال وصول کرنے کے لیے بھیجا ان لوگوں کو خبر ہوئی تو استقبال کے لیے جمعیت عظیم کے ساتھ آگے بڑھے، لیکن ولید کے دل میں بدگمانی پیدا ہوگئی وہ سمجھے کہ یہ لوگ لڑنے کے لیے آرہے ہیں چنانچہ وہ وہیں سے پلٹ آئے، نبی کو خبر دی کہ وہ لوگ دائرہ اطاعت سے باہر ہوگئے، پس آپ نے ان پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ولید بن عقبہ نبی کے صحابی تھے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ آیت ان کے حق میں نازل ہوئی ہو؟ اس بات کو حافظ بن کثیر نے بھی محسوس فرمایا، چنانچہ وہ لکھتے ہیں، سلف کی ایک جماعت نے ایسے ہی ذکر کیا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے حق میں نازل ہوئی ہے واللہ اعلم، مولانا آزاد اس پر مزید لکھتے ہیں، مفسرین کرام کو اس شان نزول پر یہ شبہ ہے کہ غلطی کی بنا پر ولید بن عقبہ جیسے جلیل القدر صحابی کو فاسق نہیں کہا جاسکتا لیکن اس آیت کا تعلق درحقیقت ان کی ذات سے مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایک عام اصول کے طور پر بتادیا ہے کہ جب زمانہ جنگ میں خود مسلمان غلطی کرسکتے ہیں تو فاسق لوگوں کی روایات کو تو اور بھی احتیاط سے قبول کرنا چاہیے۔ یہ بھی ممکن ہے ولید بن عقبہ کو کسی شریر شخص نے اس استقبال کے متعلق غلط خبر دی ہو اور اسے اقدام وہجوم کی شکل میں دکھایا ہو اور اس پر اللہ نے فاسق کا اطلاق اسی شخص پر کیا۔