إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا
اے میرے نبی ! ہم نے بے شک آپ کو کھلی اور صریح فتح (١) دی ہے
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مدنی ہے اور ١ ہجری میں صلح حدیبیہ سے واپسی کے موقع پر نازل ہوئی۔ اس واقعہ (صلح حدیبیہ) کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک روز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب دیکھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ معظمہ تشریف لے گئے ہیں اور وہاں عمرہ ادا کیا ہے انبیاء کا خواب چونکہ وحی ہوتا ہے گوبہ ظاہر اس خواب کے پورا ہونے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آئندہ سال عمرہ کے لیے صحابہ کو تیاری کا حکم دیا اور اعلان کرایا کہ ہم عمرہ ادا کرنے جارہے ہیں جوہمارے ساتھ چلنا چاہے وہ آجائے چنانچہ آپ ١٤٠٠ صحابہ کی معیت میں اس سفر پرروانہ ہوگئے۔ ذی القعدہ ٦ ہجری کو یہ قافلہ مدینہ سے روانہ ہوا۔ ذوالحلیفہ (بئرعلی) پہنچ کرسب نے احرام باندھا قربانی کے اونٹ ساتھ لیے اور ان کے گلے میں ہدی کی علامت کے طور پر قلادے ڈال دیے اور لبیک کہتا یہ قافلہ بیت اللہ شریف کوروانہ ہوا۔ کفار کے ساتھ تعلقات نہایت کشیدہ تھے ابھی پچھلے سال ٥ ہجری میں غزوہ احزاب ختم ہوا تھا اس بنا پر جب یہ قافلہ رواں ہوا توتمام عرب میں اس کی دھوم مچ گئی اور سب قبیلے نتائج کا انتظار کرنے لگے ماہ حرام میں اس قافلے کی خبر سن کر قریشی پریشان ہوگئے کیوں کہ اس مہینہ میں جو قافلہ حج یا عمرہ کے لیے جاتا تو اس کو روکنے کا کسی کو حق نہ تھا اور نہ ہی دشمن قبائل ہی راستے میں تعرض کرسکتے تھے اب اگر انکو روکتے ہیں تو عربقبائل کے منحرف ہوجانے کا خطرہ ہے اور اگر اجازت دیتے ہیں تو ان کی کمزوری پر اسے محمول سمجھا جاتا ہے مگر بالآخر انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ کسی قیمت پر مسلمانوں کو مکہ میں داخلہ کی اجازت نہ دی جائے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کچھ مخبر بھیج رکھے تھے انہوں نے خبر دی کہ قریش پوری تیاری کے ساتھ ذی طوی مقام میں جمع ہوگئے ہیں اور انہوں نے خالید بن ولید کو دوسوسواروں کے ساتھ، کراع النعیم، کی طرف آگے بھیج دیا ہے تاکہ وہ آپ کاراستہ روکیں۔ ان کی یہ کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح سے اشتعال دلاکرلڑائی چھیڑ دی جائے اور عرب میں مشہور کردیا جائے کہ یہ لوگ دراصل لڑنے آئے تھے اور عمرہ کا بہانہ بنارہے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باربار ان سے فرمایا کہ ہم عمرہ کرنے آئے ہیں اس لیے ہمارا راستہ نہ روکاجائے مگر وہ اپنی ضد پر اڑے رہے اور انہوں نے احابیش کے سردار حلیس بن علقمہ کو ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ آپ کو واپس جانے پر آمادہ کرسکے، مگر وہ یہ منظر دیکھ کر کہ اونٹوں کی گردنوں میں قلادے پڑے ہوئے ہیں اور یہ لوگ لڑنے کے لیے نہیں بلکہ بیت اللہ کا طواف کرنے آئے ہیں تو واپس چلا گیا اور قریش سے کہا کہ یہ لوگ زیارت بیت اللہ کے لیے آئے ہیں اس لیے ان کو روکنا نہیں چاہیے۔ پھر قریش نے عروہ بن مسعود ثقفی کو بھیجا مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واپسی سے انکار فرمادیا اس طرح انہوں نے باربارکوشش کی مگر ناکام رہے بالآخر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عثمان کو ایلچی بناکر مکہ بھیجا اور پیغام دیا کہ ہم عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں اس لیے ہمیں عمرہ ادا کرنے سے نہ روکیں عمرہ کرتے ہی ہم واپس چلے جائیں گے لیکن انہوں نے حضرت عثمان کو روک لیا اور مشہور ہوگیا کہ حضرت عثمان شہید ہوگئے یہ معاملہ چونکہ بہت اہم تھا اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان کا بدلہ لینے کے لیے درخت کے نیچے بیعت لی جو بیعت رضوان کے نامسے مشہور ہوئی۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خبرغلط تھی اور حضرت عثمان خود واپس تشریف لائے اور قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو ایک وفد لے کرحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا اور صلح نامہ طے پایا کہ اس سال وہ واپس چلے جائیں اور آئندہ سال عمرہ کے لیے آجائیں اور مندرجہ ذیل شرائط طے پائیں : (الف) دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بندرہے گی اور کسی کے خلاف خفیہ یاعلانیہ کوئی کاروائی نہ کی جائے گی۔ (ب) اس دوران میں جو شخص بھاگ کرمدینہ آجائے مسلمان اس کو واپس کردیں گے لیکن صحابہ کرام میں سے جو شخص مکہ چلاآئے گا وہ واپس نہ ہوگا۔ (ج) قبائل عرب میں سے جوقبیلہ بھی کسی کا حلیف بن کر اس معاہدہ میں شامل ہونا چاہے تو اسے اختیار حاصل ہوگا۔ (د) آئندہ سال آپ صحابہ کرام کی معیت میں عمرہ کے لیے آئیں گے مگر تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہرسکیں گے ان تین دنوں میں اہل مکہ شہر کو خالی کردیں گے اور آپ صرف پر تلوں میں تلوار لے کرآئیں گے۔ صحابہ کرام کو گوبعض شرائط سے اتفاق نہ تھا مگر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں منظور کرلیا تو انہیں بھی تسلیم کرنا پڑا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو سمجھایا کہ اس سال نہیں تو آئندہ سال عمرہ ادا کرلیں گے اور شرائط صلح کے مطابق بیت اللہ شریف کا طواف بھی کریں گے۔ صلح سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا اب یہیں قربانی کرکے سرمنڈاؤ اور احرام ختم کردو۔ اس پر جب حرکت نہ ہوئی تو سب سے پہلے آپ نے قربانی کی اور اپنا سرمنڈایا اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل کرناشروع کردیا۔ اس کے بعد جب یہ قافلہ واپس ہوا اور لوگ اپنی شکست محسوس کررہے تھے تو ضجنان کے مقام پر یہ سورۃ نازل ہوئی اور قرآن مجید نے اس صلح کو بہت بڑی فتح قرار دیا اور اس کے بعد مدت گزرنے کے ساتھ جب اس صلح کے فوائد سامنے آئے تولوگوں کو یقین ہوگیا کہ واقعی یہ فتح عظیم تھی اس کے نتائج حسب ذیل تھے : ١۔ اس سے مسلمانوں کی پوزیش مضبوط ہوگئی اور انہوں نے اپنی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرالیا۔ ٢۔ مسلمانوں کے لیے زیارت بیت اللہ کا حق تسلیم کرلیا گیا اور آئندہ کے لیے تمام روکاٹیں دور ہوگئیں۔ ٣۔ دس سال کی جنگ بندی کی وجہ سے امن قائم ہوگیا جس سے اسلام کی اشاعت کا موقع مل گیا اور کثرت سے لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے چنانچہ دو سال بعد جب قریش کی عہد شکنی کی وجہ سے مکہ پر آپ نے چڑھائی کی تو آپ کے ہمراہ دس ہزار کالشکرجرار تھا اور آئندہ فتوحات کے لیے دروازہ کھل گیا، پھر ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چار نعمتوں سے نوازا اور ان کا اعلان بھی کردیا۔ پہلی چیز غفران ذنوب ہے۔ یوں تو انبیائے کرام سبھی مغفوالذنوب ہوتے ہیں مگر اس اعلان کا شرف اور کسی کو حاصل نہیں ہوا اور اسی وجہ سے قیامت کے دن شفاعت کبری کے لیے آپ کا نام پیش ہوگا اور آپ اس شفاعت کے لیے مقام محمود میں کھڑے ہوں گے گوآنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغفور الذنب تھے مگر آپ ہمیشہ عبداشکورابن کررہے۔