سورة الأحقاف - آیت 15

وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھے برتاؤ (١٢) کا حکم دیا ہے، اس کی ماں اسے تکلیف کے ساتھ (پیٹ میں) ڈھوئے پھری، اور تکلیف کے ساتھ اسے جنا، اور اس کے حمل، اور اس کے دودھ چھوڑنے میں تیس مہینے لگے، یہاں تک کہ جب وہ بھرپور جوان ہوگیا، اور چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا، تو کہا، میرے رب ! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے ماں باپ کو دیا ہے، اور ایسے نیک اعمال کروں جنہیں تو پسند کرتا ہے، اور تو میری اولاد کو نیک چلن بنا دے، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں، اور بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت ٤ میں اشارہ ہے کہ اولاد پر ماں کا حق باپ کی بہ نسبت زیادہ ہے اس لیے کہ وہ اولاد کے لیے مسلسل تکلیف میں مبتلا رہتی ہے اور بچے کی تربیت کا تعلق بھی ماں سے ہے اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے ماں کے دل میں شفقت ومحبت بھی زیادہ رکھی ہے۔ ربوبیت الٰہی کی کارسازی پر غور کرو، کس طرح ماں کی فطرت میں بچے کی محبت ودیعت کی گئی ہے اور کس طرح اس جذبے کو طبیعت بشری کے تمام جذبات سے زیادہ پرجوش اور ناقابل تسخیر بنادیا گیا ہے (پھرجب) بچے کا عہد رضاعت پورا ہوجاتا ہے اور اس کا معدہ عام غذاؤں کے ہضم کرنے کی استعداد پیدا کرلیتا ہے ماں کا دودھ خشک ہوناشروع ہوجاتا ہے یہ گویاربوبیت الٰہی کا اشارہ ہوتا ہے کہ اب اس کے لیے دودھ کی ضرورت نہیں رہی۔