قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
آپ کہئے کہ ذرا غور تو کرو، اگر یہ قرآن واقعی اللہ کی جانب (٨) سے نازل کردہ ہے، اور تم اس کا انکار کر رہے ہو، اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسے قرآن کی گواہی دے چکا ہے، اور ایمان لا چکا ہے، اور تم نے از راہ تکبر اس کا انکار کردیا ہے (تو تمہارا انجام کیا ہوگا) بے شک اللہ ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا ہے
(٢) آیت ١٠ میں، شاھد من بنی اسرائیل، سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام ہیں جو مدینہ منورہ کے مشہور یہودی عالم تھے اور ہجرت کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے یہ واقعہ چونکہ مدینہ منورہ کا ہے اس لیے بعض مفسرین نے اس آیت کو مدنی قرار دیا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ یہ سورۃ بتمامہ مکی ہے اور شاہد بنی اسرائیل سے مراد کوئی خاص آدمی نہیں ہے بلکہ جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے تصریح کی ہے بنی اسرائیل کا ایک عام آدمی مراد ہے آیت کا منشایہ ہے کہ قرآن مجید کی یہ تعلیم جو تمہارے سامنے پیش کی جارہی ہے یہ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے جو دنیا میں پہلی مرتبہ تمہارے ہی سامنے پیش کی گئی ہو بلکہ اس سے پہلے یہی باتیں بنی اسرائیل کے سامنے بھی پیش کی جاچکی ہیں اور ان کے ایک عام آدمی سے پوچھ سکتے ہو وہ اس کی شہادت دے گا۔