ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ
پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ (٨) اور درانحالیکہ وہ دھواں تھا، پس اس سے اور زمین سے کہا، تم دونوں آجاؤ، چاہے خوشی سے یا نا خوشی سے، دونوں نے کہا، ہم خوشی سے آگئے
(٢) قرآن مجید نے متعدد مقامات پر تصریح فرمائی ہے کہ تمام کائنات ایک ہی دم ظہور میں نہیں آگئی بلکہ تخلیق کے مختلف دوریکے بعد دیگر ظاہر ہوئے اور یہ دورکل چھ تھے۔ اس لیے یہاں پر، اربعۃ ایام۔ کا مطلب یہ ہوگا کہ زمین کی تخلیق دو دوروں میں ہوئی پھر زمین کی سطح کی درستی پہاڑوں کی نمود ورقوت نشوونما کی تکمیل دو دوروں میں اور باقی دو دنوں میں آسمان کی خلق اور تسویہ ہوا اس طرح آسمان وزمین کی پیدائش میں چھ دن صرف ہوئے جیسا کہ دوسری آیات میں تصریح پائی جاتی ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان وزمین کی پیدائش ایک ایسے مادہ سے ہوئی جسے قرآن مجید نے، دخان، سے تعبیر فرمایا ہے یعنی مادہ کی وہ ابتدائی حالت میں وہ کائنات کی تخلیق سے قبل فضا میں بھاپ کی شکل میں پھیلاہوا تھا ممکن ہے یہ وہی مادہ ہو جسے موجودہ سائنس دان، سحاب، سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ مادہ دخانیہ ابتدا میں ملا ہوا تھا پھر اس کے مختلف حصے ایک دوسرے سے الگ کردیے گئے اور ان سے اجرام سماویہ کی پیدائش ظہور میں آئی جیسا کہ فرمایا، ان السماوات والارض کانتا رتقا ففتقناھما (١٢۔ ٣)۔ گویا کائنات بیک مرتبہ ظہور میں نہیں آئی بلکہ اس پریکے بعد دیگرے چھ دور گزرے جسے قرآن مجید نے ستہ ایام سے تعبیر فرمایا ہے ان میں دو دورہ ہیں جن میں سات ستاروں کی تکمیل ہوئی اور دو دوروں میں زمین کی پیدائش، پھر سطح زمین کی درستی، پہاڑوں کی نمودار قوت ونشوونما کی تکمیل دو دوروں میں مکمل ہوئی اس طرح اس ساری کائنات کی تکمیل کے چھ دو بنتے ہیں۔ موجودہ زمانہ میں اجرام سماویہ کی ابتدائی تخلیق اور کرہ ارضی کی نشوونما کے جونظریے تسلیم کرلیے گئے ہیں قرآن مجید کے اشارات سے بظاہر ان کی تائید ہوتی ہے لیکن نظریات بہرحال نظریات ہیں جوجزم ویقین کا کام نہیں دے سکتے اس بنا پر ان کی روشنی میں قرآن مجید کے مجمل اشارات کی تفسیر کرنا صحیح نہ ہوگا فرض کیجئے آج ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ دخان، سے مراد وہ منتشر الاجزاء مادہ کی حالت ہے جسے موجودہ دور کے سائنس دان سحابیے سے تعبیر کرتے ہیں مگر کل کو یہ نظر یہ تبدیل ہوجاتا ہے تو پھر قرآن مجید کی اس تفسیر کا کیا حشر ہوگا؟۔ دراصل ان اشارات سے قرآن مجید کا مقصد تخلیق عالم کی شرح وتحقیق نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی قدرت وحکمت کی طرف انسان کی توجہ دلانا اور توحید ورسالت پراستدلال کرنا ہے اسی لیے قرآن مجید نے کائنات کی تخلیق کا ذکر کرنے کے معابعد فرمایا، فان اعرضو، یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت وحکمت کی ان نشانیوں کو دیکھ کربھی اگر یہ لوگ توحید کا اقرار نہیں کرتے تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تم کو اچانک آجانے والے عذاب سے ڈراتا ہوں۔ ” آسمان کی خلق ایسے مادہ سے ہوئی جسے قرآن مجید نے دخان سے تعبیر کیا ہے اس دھویں سے قدیم مفسرین نے پانی کے بخارات مراد لیے ہیں اور انہی کو موجودہ سائنس دارن، سدی، یا، سحابیہ سے تعبیر کرتے ہیں یعنی بادلوں کے منتشر اجزاء تمام اشارات کا ماحصل بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں مادہ دخانی تھا پھر اس میں انقشام ہوا یعنی بہت سے ٹکڑے ہوئے پھر ہر ٹکرے نے ایک قرص کی شکل اختیار کرلی پھر زمین نے کوئی ایسی شکل اختیار کرلی کہ، دخانیت کی جگہ مائیت نے لے لی، یعنی پانی پیدا ہوگیا پھر خشکی کے قطعات درست ہوئے پھر پہاڑوں کے سلسلے نمایاں ہوئے پھر زندگی کانمو شروع ہو اور نباتات ظہور میں آگئیں۔ لیکن یہ معاملہ غیب سے تعلق رکھتا ہے جس کی حقیقت ہم اپنے علم وادراک سے نہیں معلوم کرسکتے، اور قرآن کا مقصود ان اشارات سے تخلیق عالم کی شرح وتحقیق نہیں بلکہ خدا کی قدرت وحکمت کی طرف انسان کو توجہ دلانا ہے پیدائش عالم کے بارے میں مفسرین نے بہت سی روایات نقل کردی ہیں جن کی صحت ثابت نہیں۔