أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ
کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اللہ آسمانوں اور بارش سے (١٥) نازل کرتا ہے، پھر اسے چشموں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کرتا ہے، پھر اس کے ذریعہ مختلف رنگ کا شت نکالتا ہے، پھر وہ پک جاتی ہے، تو آپ اسے زرد دیکھتے ہیں، پھر اللہ اسے ریزہ ریزہ بنا دیتا ہے، بے شک اس میں عقل و خرد والوں کے لئے نصیحت ہے
(٩) آیت ٢١ میں ایک قانون قدرت کی طرف اشارہ کیا ہے جو سب میں یکساں جاری وساری ہے یعنی بارش سے کھیتی کا اگنا اور مختلف مدارج طے کرنے کے بعد اس کا فنا ہوجانا اس کو عقل مندوں کے لیے نصیحت فرمایا کیونکہ خود انسان کی بھی یہی حالت ہے پہلے بچہ ہوتا ہے پھر جوان ہوتا ہے پھر پختہ ہوکربوڑھاہو جاتا ہے اور آخر کار دنیا سے سدھار جاتا ہے۔ اور یہی حال دنیا کا ہے اس کی سب زینتیں عارضی اور چند روزہ ہیں اور آخرکار اس کی ہر چیز کو فنا ہے اس کے ہر کمال کو انحطاط ہے اور ہر عروج کا زوال ہے۔ ” نظام ربوبیت کی یکسانی اور ہم آہنگی ہر وجود اور گوشے میں نظر آتی ہے انسان کا بچہ درخت کاپودا تمہاری نظر میں کتنی ہے بے جوڑ چیزیں ہیں لیکن اگر ان کی نشوونما کا کھوج لگاؤ گے تو دیکھ لو گے کہ قانون پرورش کی یکسانی نے دونوں کو ایک ہی رشتے میں منسلک کردیا ہے یہاں تک کہ ہر وجود اپنے سن کمال تک پہنچ جاتا ہے اور جب سن کمال تک پہنچ گیا تواز سرنوضعف وانحطاط کا دورشروع ہوجاتا ہے پھر اس دور کا خاتمہ بھی سب کے لیے ایک ہی طرح کا ہے کسی دائرے میں اسے مرجانا کہتے ہو کسی میں مرجھا جانا اور کسی میں پامال ہوجانا۔