أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ
) کیا ایسا شخص بہتر ہے) یا وہ جو رات میں سجدہ (٨) اور قیام کے ذریعہ اپنے رب کی عبادت میں لگا ہو، عذاب آخرت سے ڈرتا ہو، اور اپنے رب سے اس کی رحمت کی امید لگائے ہو۔ اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں، بے شک عقل والے ہی نصیحت کرتے ہیں
(٨)، جوجانتے ہیں، یعنی اللہ و رسول کی بتائی ہوئی باتوں کو مانتے ہیں اور جو نہیں مانتے یہ دونوں کب برابر ہوسکتے ہیں؟۔ ” یادرہے کہ یہ ایک نہایت اہم اور بصیرت طلب آیت کریمہ ہے ایک ایسے قانت ومنقطع شخص کی مثال دے کر فرمایا، ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون۔ غور کیجئے کہ بہ ظاہر اسے علم وجہل سے کیا تعلق تھا؟ اصل یہ ہے کہ جو حالت زار شخص (قانت ومنقطع) کی بیان کی گئی ہے وہی فی الحقیقت علم وحکمت حقیقۃ کا انتہائی مرتبہ ہے اور وہی حالت ہے جسے علم کا اصلی نتیجہ یقین کرنا چاہیے“۔