وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِيلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ
اور جب انسان کو کوئی تکلیف (٧) پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو اس کی طرفٍ دل سے رجوع ہو کر پکارنے لگتا ہے، پھر جب وہ اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت دیتا ہے، تو وہ اس کو تکلیف کو بھول جاتا ہے جسے دور کرنے کے لئے وہ پہلے اللہ کو پکارتا تھا، اور اللہ کے لئے شریک بناتا ہے، تاکہ لوگوں کو اس کی راہ سے گمراہ کرے۔ اے میرے نبی ! آپ (ایسے آدمی سے) کہہ دیجیے کہ تم اپنی نا شکری سے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لو، بلا شبہ تم جہنمیوں میں سے ہو
(٧) آیت ٨ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ رنج ومصیبت کی حالت میں انسان کے اندروجدانی طور پرولولہ اٹھتا ہے کہ ایک بالاتر ہستی موجود ہے جو میرے دکھ درد کو دور کرسکتی ہے اور اسی کو پکارنا چاہیے لیکن جب مصیبت دور ہوجاتی ہے تو پھر عیش وراحت کی غفلتوں میں پڑ کر اسے بھول جاتا ہے اور دوسروں کو اللہ کے ہمسر بنانے لگ جاتا ہے قرآن مجید نے جابجا اس فطری حالت سے استشہاد کیا ہے کہ انسانی فطرت اپنے اندرونی ادراک میں خدا کی ہستی کا ادراک رکھتی ہے اور عراض وغفلت اور شرک کی حالت وجدانی نہیں بلکہ خارجی اثرات کا نتیجہ ہے۔