إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں
(٨) آیت ٧٥ سے ان منذرین کا اجمالا ذکر کیا گیا۔ (الف) حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم کو دعوت دینے کے بعد جب مایوس ہوگئے تو اللہ سے دعا کی کہ میں مغلوب ہوگیا ہوں اب ان سے میرا انتقام لے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس کرب عظیم یعنی طوفان سے نجات دی اور تمام کفار کو غرق کردیا۔ (ب)۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی نسل ہی دنیا میں باقی رہ گئی باقی سب ہلاک ہوگئے یا اس کا مطلب ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی نسل تو باقی رہ گئی اور مخالفین نیست ونابود ہوگئے۔ ” سورۃ صافات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے تذکرہ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ ان کے سلام کے ساتھ، فی العالمین، کا لفظ فرمایا لیکن اور انبیاء کی نسبت صرف سلام پر اکتفا کیا، یہ دراصل اسی کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت نوح کی دعوت کسی خاص نسل اور قوم کے زندہ کردینے کے لیے نہ تھی بلکہ اقوام وملل کی ہرنس اس کے دامن میں پناہ لے سکتی ہے“۔