وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ
اور اے نبی ! آپ انہیں بطور مثال بستی والوں کا قصہ (٩) سنا دیجیے، جب ان کے پاس رسول آئے
(٣) اس بستی سے مراد شام کاشہرانطاکیہ ہے اور رسولوں سے مراد وہ رسول ہیں جو حضرت عیسیٰ نے تبلیغ کے لیے بھیجے تھے نیز بیان کیا گیا ہے کہ اس زمانہ میں انطیخش اس علاقے کا بادشاہ تھا مگر تاریخی حیثیت سے یہ قصہ بے بنیاد ہے کیونکہ انطاکیہ میں ان بادشاہوں (یعنی سلوتی خاندان) کا دور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے ختم ہوچکا تھا۔ حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں انطاکیہ رومیوں کے زیرتسلط تھا اور کسی عیسائی روایت سے بھی ثابت نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس شہر میں مبلغ بھیجے تھے اور پھر بائبل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انطاکیہ وہ پہلاشہر ہے جہاں کثرت سے غیراسرائیلیوں نے مسیحت کو قبول کیا، حالانکہ قرآن مجید کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے انبیاء کی دعوت کورد کیا اور بالآخر عذاب الٰہی میں گرفتار ہوگئے اس قصہ سے مقصد قریش کو تنبیہ کرنا ہے کہ تم ہٹ دھرمی سے باز آجاؤ ورنہ تمہارا انجام بھی وہی ہوگا جوان لوگوں کا ہوا ہے۔