وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا
اور جب آپ اس شخص سے کہتے (30) تھے جس پر اللہ نے احسان کیا اور آپ نے بھی اس پر احسان کیا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھو، اور اللہ سے ڈرو، اور آپ اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا، اور آپ لوگوں سے خائف تھے، حالانکہ اللہ زیادہ حقدار تھا کہ آپ اس سے ڈرتے، پس جب زید نے اس سے اپنی ضرورت پوری کرلی، تو ہم نے اس سے آپ کی شادی کردی، تاکہ مومنوں کے لئے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے شادی کرنے میں کوئی حرج باقی نہ رہے، جب وہ منہ بولے بیٹے ان بیویوں سے اپنی ضرورت پوری کرلیں، اور اللہ کے فیصلے کو بہر حال ہونا ہی تھا
(٨) آیت ٣٧ میں، اس شخص، سے مراد زید بن حارثہ ہیں جن کا اصل تعلق قبیلہ کلب سے تھا اور ان کی والدہ سعید بنت ثعلبہ قبیلہ طے کی شاخ بنی معن سے تھیں حضرت زید کو آٹھ سال کی عمر میں بنی قین نے اٹھالیا اور طائف کے میلہ عکاظ میں لے جاکر فروخت کردیا جسے حضرت خدیجہ کے بھتیجے حکیم بن حزام نے خرید لیا اور نہوں نے مکہ لا کر اپنی پھوپھی خدیجہ کی خدمت میں دے دیا، نبی نے جب خدیجہ سے نکاح کرلیا توحضرت زید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کے لیے مختص کردیے گئے اس وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی کچھ مدت کے بعد ان کے باپ اور چچا کو پتا چلا تو وہ حضرت زید کا فدیہ لے کر مکہ آئے تاکہ انہیں چھڑاکر لے جائیں مگر آپ نے فدیہ لینے سے انکار کردیا اور حضرت زید کو اختیار دیا کہ اگر وہ اپنے خاندان میں جانا چاہیں تو ان پر کوئی پابندی نہیں ہے مگر انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رہنا پسند کرلیا اس پر آپ نے اس وقت کے رواج کے مطابق مجمع عام میں انہیں بیٹا بنالینے کا اعلان کردیا، اس بنا پر لوگ انہیں زید بن محمد کہہ کرپکارنے لگے اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تو حضرت زید کی عمر تیس سال تھی انہوں نے حضرت ابوبکر، حضرت خدیجہ اور حضرت علی کے ساتھ اسلام قبول کرلیا۔ ٤ ہجری میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پھوپھی کی لڑکی حضرت زینب سے حضرت زید کا نکاح کردیا گیا مگر ان کے تعلقات استوار نہ ہوسکے، بالآخر حضرت زید نے انہیں طلاق دے دی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب سے خود نکاح کرلیا قرآن مجید نے اس نکاح کو، زوجنکھا، سے تعبیر فرمایا ہے کہ ہم نے اسے تیری زوجیت میں دے دیا، مگر عرب سوسائٹی میں اپنے پروردہ کی مطلقہ بیوی سے نکاح معیوب تھا اس بنا پر آپ ہچکہچا رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ کے حکم کو مانے بغیر چارہ بھی نہ تھا تذبذب کی اسی کیفیت کی طرف قرآن مجید نے، وتخشی الناس واللہ احق ان تخشہ، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیثیت اور آپ کے فریضہ دعوت کی وضاحت کرنے کے بعد آیت ٤٨ میں اس سورۃ کی پہلی آیت کا مفہوم دوہرا کر اس مضمون کو ختم کردیا ہے۔ اس کے بعد طلاق قبل از مسیس کا حکم مذکور ہے اور پھر محلات کا بیان ہے اور یہ آیات پہلے مضمون کے ساتھ مربوط ہیں اور اجنبی (بے جوڑ) نہیں ہیں زید نے حضرت زینب کو طلاق قبل از مسیس ہی دی تھی اور حضرت زینب جن کے نکاح پر کفار اور منافقین اعتراض کررہے تھے آنحضرت کی پھوپھی زاد بہن بھی تھی لہذا مضمون وہی حضرت زینب کا نکاح اور اس کے متعلقات ہی ہیں پھر یہاں پر کچھ ایسے احکام بیان فرمائے جن کا تعلق خاص طور پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہے۔