فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
پس جو کوئی آپ سے اس بارے میں آپ کے پاس علم آجانے کے بعد جھگڑے، تو کہہ دیجئے کہ آؤ (50) ہم اور تم اپنے اپنے بیٹوں کو، اور عورتوں کو، اور اپنے آپ کو اکٹھا کرلیں، پھر عاجزی کے ساتھ دعا کریں، اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں
25: اس عمل کو مباہلہ کہا جاتا ہے، جب بحث کا کوئی فریق دلائل کو تسلیم کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی پر تل جائے تو آخری راستہ یہ ہے کہ اسے مباہلہ کی دعوت دی جائے جس میں دونوں فریق اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ ہم میں سے جھوٹا یا باطل پر ہو وہ ہلاک ہوجائے، جیسا کہ اس سورت کے شروع میں بیان ہوا ہے، شہر نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا تھا اس نے آپ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی خدائی پر بحث کی، جس کا اطمینان بخش جواب قرآن کریم کی طرف سے پچھلی آیتوں میں دے دیاگیا، جب وہ کھلے دلائل کے باوجود اپنی گمراہی پر اصرار کرتے رہے تو اس آیت نے آنحضرتﷺ کو حکم دیا کہ وہ انہیں مباہلے کی دعوت دیں ؛ چنانچہ آپﷺ نے ان کو یہ دعوت دی اور خود اس کے لئے تیار ہو کر اپنے اہل بیت کو بھی جمع فرمالیا لیکن عیسائیوں کا وفد مباہلے سے فرار اختیار کرگیا۔