فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
پس (اے میرے نبی !) آپ یکسو ہو کر دین اسلام پر قائم (١٨) رہئے، یہ اللہ کا وہ دین فطرت ہے جس کے مطابق اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے، یہی سچا اور صحیح دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں
(٨) گزشتہ آیات میں توحید کے دلائل بیان کرنے کے بعد آیت ٣٠ سے بالواسطہ مسلمانوں کو حکم دیا کہ اب تمہیں بھی چاہیے کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرو، اور ہر طرف سے رخ پھیر کر دین اسلام کی پیروی کرو، یہی وہ فطرت ہے جس پر تمام لوگ پیدا کیے گئے ہیں احادیث میں اس کی تشریح مذکور ہے کہ ہر بچہ اسلامی فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر والدین اسے عیسائی، یہودی یا مجوسی بناڈالتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہ جتنی فرقہ بندیاں ہیں دین فطرت سے علیحدہ ہو کر بنائی گئی ہیں ہر گروہ اپنے خود ساختہ عقیدہ پر نازاں وفرحان ہے کہ اپنی غلطی کا امکان اس کے تصور میں نہیں آتا لیکن عقل اور فطرت انسانی کی شہادت صاف طور پر شرک کارد کرتی ہے۔ ” قرآن کہتا ہے یہی راہ عمل نوع انسانی کے لیے خدا کاٹھہرایا ہوا فطری دین ہے اور فطرت کے قوانین میں کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی یہی، الدین القیم، ہے یعنی سیدھا اور درست دین، جس میں کسی قسم کی خامی نہیں، یہی دین حنیف ہے جس کی دعوت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دی تھی، اس کا نام اصطلاح میں، الاسلام، ہے یعنی خدا کے ٹھہرائے ہوئے، قوانین کی فرمانبرداری “۔