ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ ۖ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
وہ تمہیں سمجھانے کے لئے تمہاری ہی ذات سے ایک مثال (١٧) پیش کرتا ہے، کیا تمہارے غلاموں میں کچھ ایسے ہیں جو ہماری دی ہوئی روزی میں تمہارے ساتھ شریک ہوں اور تم سب اس میں برابر ہو، ان غلاموں سے تم اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے برابر کے لوگوں سے ڈرتے ہو، ہم اسی طرح آیتوں کو کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں
(٧) یہاں تک تو آخرت اور توحید کے مشترکہ دلائل تھے، اب آیت نمبر ٢٨ سے خالص توحید کے دلائل بیان ہورہے ہیں (رازی)۔ مشرکین ایک طرف تو زمین و آسمان اور سب چیزوں کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ کو مانتے اور پھر اس کی مخلوق میں سے اس کے شریک بھی ٹھہراتے ان کے سامنے نذرونیاز پیش کرتے تو ان کے اس رویہ کی تمثیل بیان فرمائی ہے جس کا منشایہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے مال میں تمہارے غلام تو شریک قرار نہیں پاسکتے، تو پھر خدا کی پیدا کی ہوئی کائنات میں خدا کی پید اکردہ مخلوق کیسے شریک بن سکتی ہے؟۔