اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ
آپ جو کتاب (٢٥) بذریعہ وحی نازل کی گئی ہے، اس کی تلاوت کیجیے اور نماز قائم کیجیے، بے شک نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے، اور یقیناً اللہ کی یاد تمام نیکیوں سے بڑی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے
(١٦) اس عہد میں مسلمان جن مصائب اور حوصلہ شکن حالات سے دوچار ہیں شروع سورۃ سے یہاں تک صبر واستقامت کی تلقین کی ہے اور اب ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کو کچھ عملی احکام پرکاربند رہنے کا حکم دیا جارہا ہے اور وہ ہے قرآن کی تلاوت اور اقامت صلوۃ۔ کیونکہ یہی دوچیزیں ایسی ہیں جوکسی مسلمان کے کردار میں مضبوطی کاسبب بن سکتی ہیں لیکن ان دونوں عبادتوں سے اخلاقی طاقت جبھی حاصل ہوسکتی ہے کہ قرآن کا حق تلاوت ادا کرے اور صحیح معنوں میں نماز ادا کرے۔ جوکام قبیح ہوں جیسے حرام کاری، ان کو فحشاء کہتے ہیں اور قانون اسلام نے جن کی اجازت نہ دی وہ منکر ہیں آیت کریمہ کی تفسیر میں ابوالعالیہ کا قول ہے کہ نماز کی تین خصلتیں ہیں ان میں کوئی بھی خصلت کسی نماز میں نہ ہو تو وہ نماز ہی نہیں، وہ خصلتیں یہ ہیں (١) خلوص۔ ٢۔ خوف خدا۔ ٣ یادالٰہی۔ خلوص کا فعل یہ ہے کہ وہ نماز پڑھنے ولے کو نماز کا حکم دیتا ہے، خوف خدا اسے بدی سے روکتا ہے اور یاد الٰہی (قرآن) کا فعل امر ونہی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔