سورة القصص - آیت 59

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ کا رب بستیوں کو اس وقت تک نہیں ہلاک (٣٠) کرتا، جب تک ان کے مرکزی شہروں میں ایک رسول نہیں بھیج دیتا جو ان کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور ہم انہی بستیوں کو ہلاک کرتے ہیں جن کے رہنے والے ظالم ہوتے ہیں

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(١٦) تم سے پہلے بہت سی آبادیاں بربادیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں اس لیے کہ انہوں نے تمہاری طرح اپنی خوشحالی کی وجہ سے تکبر کیا اور بالآخر وہ ملیامیٹ کردی گئیں بہرحال دنیا کی زندگی چند روزہ ہے اس کی خاطر آخرت کی ابدی زندگی کو تباہ وبرباد کرنا کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے، تماشا گاہ ہستی کا ایک بہت بڑا منظر وہ تغیرات ہیں جن کے طوفان قوموں اور ملکوں کے اندر اٹھتے ہیں اور بڑی بڑی آبادیوں کو تہ وبالا کردیتے ہیں حتی کہ آبادیوں کی جگہ ویرانیوں سے مبدل جاتی ہے زندگی کی رونق پر موت کاسناٹآ چھا جاتا ہے اور انسانی عیش ونشاط کے بڑے بڑے محل مدفن قبور ومقبرہ وخرابہ سلب ونہب ہو کر بودومفقود ہوجاتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ بات عدل الٰہی کے خلاف ہے کہ ایک گروہ اپنے اعمال بد کے لیے جواب دہ ٹھہرایاجائے حالانکہ اس کی ہدایت کے لیے کوئی رسول نہ بھیجا گیا ہو۔