وَقَالُوا إِن نَّتَّبِعِ الْهُدَىٰ مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا ۚ أَوَلَمْ نُمَكِّن لَّهُمْ حَرَمًا آمِنًا يُجْبَىٰ إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّن لَّدُنَّا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اور مشرکین مکہ کہتے (٢٨) ہیں کہ اگر ہم تمہارے ساتھ دین اسلام کی پیروی کرنے لگیں گے تو ہمیں ہماری سرزمین سے اچک لیاجائے گا، کیا ہم نے انہیں پرامن حرم میں رہنے کی جگہ نہیں دی ہے جہاں ہر طرح کے پھل ہماری طرف سے روزی کے طور پر پہنچائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ نادان ہیں
(١٥) کفار قریش دین اسلام قبول نہ کرنے کے لیے عذر کے طور پر یہ کہتے کہ ہمارا تعلق ایک معزز خاندان سے ہے ہم کعبہ کے متولی ہیں اور ہمیں تمام عرب کی مذہبی پیشوائی کا شرف حاصل ہے اور اردگرد کے ممالک سے ہمارے تجارتی تعلقات ہیں اگر ہم بت پرستی کوچھوڑ کردین اسلام اختیار کرلیں گے توہمارا تمام کاروبار تباہ ہوجائے اور ہمارے مذہبی اثر ورسوخ کا خاتمہ ہوجائے گا اس پر اللہ نے انہیں یاد دلا کہ حرم امن میں ہم نے تمہیں رسوخ بخشا ہے جس کی تمام عرب تعظیم بجالاتے ہیں اس نعمت کی شکرگزاری کا تقاضا یہ تھا کہ تم اس دعوت اسلامی کو قبول کرلیتے مگر تم بغاوت کرکے اپنی بربادی کا سامان پیدا کررہے ہو۔