قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ ۗ آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ
اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے (٢١) کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور سلام ہو اس کے بندوں پر جنہیں اس نے اپنی رسالت کے لیے چن لیا، کیا اللہ بہتر ہے یا وہ معبودان باطل جنہیں مشرکین اسی کا شریک بناتے ہیں۔
(٨) اب خاتمہ سورۃ میں توحید پر اس کے آفاتی دلائل پیش کرکے بتادیا کہ منکرین کے انکار کا اصل سبب آخرت کا انکار ہے، اس طرح خاتمہ سورۃ تمہید کے ساتھ مربوط ہوگیا ہے۔ (الف) اللہ نے کائنات کاجومربوط نظام قائم کیا ہے اور زمین میں و آسمان میں زندگی کے جو سامان مہا کیے گئے ہیں یہ تمام چیزیں اللہ کے سوانہ تو کوئی بناسکتا ہے اور نہ ہی اس نظام کو چلاسکتا ہے تو پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ مشرکین اللہ کے سوادوسروں کو کیوں شریک ٹھہرارہے ہیں۔ (ب) زندگی میں جب مشکلات پیش آتی ہیں تو ہم لاچار ہو کر اللہ کو پکارتے ہیں اور اللہ ہی مصیبت کو کھولتا ہے اور تمہیں زمین میں اختیارات اسی نے تفویض کیے ہیں، بحر وبر کی تاریکیوں میں ہدایت کے لیے اس نے ستاروں کانظام قائم کردیا ہے الغرض یہ سارانظام اللہ کا قائم کیا ہوا ہے پھر دوسروں کو اس کے ساتھ کیوں شریک کرتے ہو، اگر اللہ کے ساتھ کسی کے شریک ہونے پر تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرو اگر تم سچے ہو، الغرض ان آیات میں خلق وتدبیر اور رزاقی کے اعتبار سے اللہ کے الہ واحد ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔