كَذَّبَتْ عَادٌ الْمُرْسَلِينَ
قوم عاد (٣٥) نے بھی رسولوں کی تکذیب کی تھی۔
(٧) قوم نوح کی تباہی کے بعد عرب میں قوم عاد کو عروج ہوا، ان کی آبادیاں عمان سے لے کرحضرموت اور یمن تک پھیل گئی تھیں حضرت ہود (علیہ السلام) کا انہی میں ظہور ہوا۔ (الف) یہاں پر بھی اسی بیان کو دہرایا جس سے حضرت نوح کا تذکرہ شروع کیا تھا یعنی قوم عاد نے رسولوں کی تکذیب کی، اس لیے کہ گوانہوں نے انکار ایک رسول کا کیا تھا لیکن اس کی تعلیم تمام رسولوں ہی کی تعلیم تھی، پس ایک کو جھٹلانا سب کو جھٹلانا ہے۔ (ب) حضرت ہود (علیہ السلام) نے اللہ کا ڈر سنانے کے بعد سب سے بڑی خرابی، جس پر یہاں زور دیا ہے وہ فساد وتمدن ہے جس پر وہ اسی طرح فریفتہ ہوں گے گویا دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے، جب کسی قوم میں عیاشی حد سے تجاوز کرجاتی ہے اور مال ودولت کی فراوانی کبرونخوت پیدا کردیتی ہے تو مالدار طبقہ شاندار عمارتوں کے قائم کرنے کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور اس میں شوق جنون، نمائش اور تفاخر وتنافس کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور وہ ہر اہم مقام پر بنگلوں اور کوٹھیوں کی تعمیر میں لگ جاتے ہیں، حالانکہ دوسری طرف قوم کے مفلوک الحال طبقے کو سرچھپانے کو جھونپڑا بھی میسر نہیں ہوتا حضرت ہود (علیہ السلام) نے اس پر گرفت کی اور ان کی غلط روش پرانہیں آگاہ کیا اور مال ودولت کے بے جا تصرف پر ٹوکا۔ (ج) دوسری سب سے بڑی برائی جو ان میں پائی جاتی تھی کہ وہ اپنے گردوپیش کی کمزور قوموں پر سخت مظالم ڈھارہے تھے جو بھی ان کے ظلم وتشدد کے پنجہ میں آجاتا اسے مروا کررکھ دیتے ہیں حضرت ہود (علیہ السلام) نے ظلم وفساد سے روکا اور کہا کہ اب بھی وقت ہے کہ اللہ سے ڈر جاؤ اور ظلم وستم سے باز آجاؤ۔ (د) مگر قوم عاد نے حضرت ہود (علیہ السلام) کی اس تمام تذکیر وتنبیہ کا جواب نہایت تحقیر واستہزا کے ساتھ دیا جس کے بعد ہم نے انہیں ہلاک کردیا، مزید تفصیل کے لیے سورۃ الاحقاف ملاحظہ ہو۔