تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ
یہ سورت اس قرآن کی آیتیں ہیں جو ہر بات کو بیان کرتا ہے۔
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور سورۃ الفرقان کی طرح یہ سورت بھی نبی صلی اللہ کی رسالت اور قرآن کے وحی الٰہی کے اثبات پر مشتمل ہے یہ سورۃ بھی مکی زندگی کے دور متوسط میں نازل ہوئی ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ پہلے سورۃ طہ نازل ہوئی پھر واقعہ اور اس کے بعد الشعراء۔ اور یہ معلوم ہے کہ سورۃ طہ حضرت عمر کے قبول اسلام سے پہلے نازل ہوچکی تھی، سورۃ الفرقان کی مثل اس سورۃ میں بھی کفار مکہ کے پیہم جحود وانکار کا بیان ہے اور نبی سے کوئی نشانی دکھانے کا مطالبہ کررہے ہیں، کبھی آپ کوشاعر اور کاہن کہتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ اس (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبعین نادان اور ادنی طبقے کے لوگ ہیں اگر آپ سچے نبی ہوتے تو قوم کے اشراف اور شیوخ اس کے قبول کرنے میں سبقت کرتے نبی انہیں بار بار سمجھاتے مگر وہ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے اس پر آپ پر غمزدہ ہوتے، ان حالات میں یہ سورۃ نازل ہوئی اور آپ کو تسلی دی گئی کہ یہ لوگ ہٹ دھرم ہیں۔ اگر نشانیاں دیکھ کر ایمان لانے والے ہوتے تو ان کے گردوپیش زمین پر ہر طرف نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر حقیقت کو پہچان سکتے ہیں پھر جب یہ لوگ قدرت کی نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے تو یہ لوگ اس وقت تک اپنے کفر وشرک پر قائم رہیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت میں نہ آجائیں پھر اس مناسبت سے سات نامور قوموں کے حالات پیش کیے ہیں جنہوں نے اپنے انبیاء کے مقابلہ میں ہٹ دھرمی سے کام لیا اور بالاآخر تباہ وبرباد کردیے گئے گذشتہ اقوام کے ان قصوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں انبیاء کی تکذیب کے لیے ایک ہی قسم کے اعتراضات کیے گئے اور تمام انبیاء کی اساسی تعلیم بھی ایک جیسی رہی ہے۔ پھر آخر میں کفار کو خطاب ہے کہ اگر تم نشانیاں ہی دیکھتا چاہتے ہو تو اس قسم کی نشانیوں پر کیوں اصرار کرتے ہو جو تباہ شدہ قوموں نے دیکھیں یہ قرآن بجائے خود نبی کی صداقت پر معجزہ ہے کیا یہ شاعرانہ کلام ہے؟ اگر تم صدق دل سے اس کلام پر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ کہانت یا شاعری سے اس کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہے اسی سے اندازہ کرسکتے ہو کہ تمہارا نجام کیا ہوگا۔ (٢) قرآن کتاب مبین ہے جو حقائق کو کھول کر بیان کرتی ہے اسلوب سے بیان میں کوئی ابہام اور پیچیدگی نہیں ہے اس کے مضامنی اور پیش کردہ حقائق خود ہی بتارہے ہیں کہ علیم وخبیر کی طرف سے نازل کی گئی ہے اس کی ہر آیت ایک معجزہ ہے جو نبی کی نبوت کا یقین کرنے کے لیے کافی ہے کفار مکہ جو آپ سے معجزات کے طالب تھے ان کے لیے کتاب مبین کی آیات موجود ہیں آپ کو کاہن، یا شاعر کہنے والے اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ کلام کسی کاہن یا شاعر کی زبان سے نہیں نکل سکتا۔