فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا
پس آپ کافروں کی بات نہ مانیے اور (قرآن کے ذریعہ) ان سے خوب جہاد کرتے رہیے۔
(١١) آیت ٥١، ٥٢ میں اس حقیقت کو واضح کیا کہ نبی کی بعثت کسی ایک علاقے کے ساتھ مختص نہیں بلکہ آپ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے مبعوث ہوئے ہیں لہذا آپکو چاہیے کہ بڑے وسیع پیمانے پر جدوجہد کریں اور اقامت دین کے لیے کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہ کریں آپ نے سمندروں کو طوفانوں اور موجوں کی صورت میں دیکھا ہے کہ پانی کی سرکشیاں کیسی شدید ہوتی ہیں لیکن اس سرکش اور مغرور دیو پر جب حقیقت اسلامی کی اطاعت کا قانون نافذ ہوا تو اس عجز وتذلیل کے ساتھ اس کاسرجھک گیا کہ ایک طرف میٹھے پانی کا دریا بہ رہا ہے اور دوسری طرف کھاری پانی کا بحزخار ہے دونوں اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ کوئی شے ان کے درمیاں نہیں مگر نہ تو دریا کی یہ مجال ہے کہ سمندر کی سرحد میں قدم رکھے اور نہ سمندر بہ ایں ہمہ قوت وقہاری اس کی جرات رکھتا ہے کہ اپنی سرکش موجوں سے دریا پر حملہ کرے۔ ازدواجی زندگی سے توالد وتناسل کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہوگیا کہ ہر وجود پیدا ہوتا ہے اور ہر وجود پیدا کرتا ہے ایک طرف وہ نسب کارشتہ رکھتا ہے جو اسے پچھلوں سے جوڑتا ہے دوسری طرف صبر یعنی دامادی کارشتہ رکھتا ہے جو اسے آگے آنے والوں سے مربوط کردیتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ ہر وجود کی فردیت ایک وسیع دائرے کی کثرت میں پھیل گئی ہے رشتوں اور قرابتوں کا ایسا حلقہ پیدا ہوگیا ہے جس کی ہر کڑی دوسری سے مربوط ہے۔