إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
مومنوں کو جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا (٢٩) جاتا ہے تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کردے تو کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بات سن لی اور اسے مان لیا، اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
(٣٨) آیت ٥١ کا تعلق اگرچہ معاملہ قضا سے ہے لیکن منشاء اس کا عام ہے یہاں سے معلوم ہوگیا کہ جب قرآن وسنت کا کوئی فیصلہ مسلمانوں کے سامنے آجائے تو انہیں فورا سمعنا واطعنا، کہہ کر اس کے آگے جھک جانا چاہیے اور سارے حیلوں اور حجتوں کا خاتمہ ہوجانا چاہیے پھر یہ جو لوگوں نے مختلف اماموں اور پیشواؤں کے اقوال وآراء کو اپنی تقلید واطاعت کا مرکز بنارکھا ہے اور قرآن مجید کی کوئی آیت ملت کی کوئی تصریح، عقل ودرایت کی کوئی روشنی بھی ان کارخ اس خود ساختہ قبلہ سے نہیں پھرا سکتی، کیا وہ ایسے طریقے کو ایمان باللہ ورسلہ کا سچا طریقہ کہہ سکتے ہیں؟ اگر ان کے سامنے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا فرمان پیش کیا جائے تو ان کی زبانوں کو حرکت نہ ہوگی لیکن جونہی ان کے مشائخ وفقہاء کا قول سامنے آجائے بے اختیار پکاراٹھیں گے، سمعناواطعنا۔