وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور تم سے جو لوگ صاحب فضل اور صاحب حیثیت (١٣) ہیں، وہ رشتہ داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھا لیں، بلکہ معاف کردیں اور درگزر کردیں، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کردے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔
(١٣) جیسا کہ مندرجہ بالاآیات میں، اہل افک، کو تنبیہ وتادیب کی گئی ہے، اسی طرح آیت نمبر ٢٢ میں حضرت ابوبکر کو تادیب کی گئی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب حضرت عائشہ کی برات نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر نے قسم کھائی کہ اب مسطح بن اثاثہ (جو ان کے خالہ زاد بھائی تھے) کے ساتھ مالی تعاون نہیں کریں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی، حضرت ابوبکر کا جذبہ اطاعت دیکھیے کہ انہوں نے اسی وقت مسطح کا وضیفہ بحال کردیا اور کہا کہ ہم ضرور چاہتے کہ اللہ ہمیں معاف فرمائے۔ تواتر سے یہ ثابت ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے حق میں نازل ہوئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابوبکر امت میں صاحب فضیلت تھے اور دین و ایمان میں ذی شان ہونے کے علاوہ صاحب وسعت بھی تھے اور لوگوں پر احسان کیا کرتے تھے جو بہت بڑی نیکی ہے اور ایسے لوگوں کو اللہ کی معیت حاصل ہوتی ہے (ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون) اور حدیث میں ہے بہتر وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے، معلوم ہوا کہ اس لحاظ سے بھی حضرت ابوبکر بہتر تھے نیز حضرت ابوبکر کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ مسلمان ہوتے یہ وہ اسلام کے داعی بن گئے اور بہت سے کبار صحابہ نے حضرت ابوبکر کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ تعالیٰ آیت نمبر ٢٢ کے تحت لکھتے ہیں۔ آیت نمبر ٢٢ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ معاشرتی زندگی کے اخلاقی فرائض کے لیے قرآن حکیم کا معیار عمل کس درجہ بلند ہے فرمایا اگر خدا نے تمہیں استطاعت دی ہے اور تم اپنے قرابت دار حاجت مندوں اور مسکینوں کی اعانت کرتے ہو تو تمہارا فرض ہے کہ ہر حال میں ان کی اعانت کرو تمہارے لیے کسی طرح یہ بات جائز نہیں کہ ان کے کسی قصور اور جرم سے خشمگین ہو کر دست اعانت کھینچ لو اور عہد کرلو کہ ایسے نالائقوں کی کبھی مدد نہیں کرو گے ان کاجرم کتنا ہی سخت مگر تمہارے عفودرگزر کو کوتاہ نہیں ہونا چاہیے یہاں ہر حال میں اصل عمل عفو وبخشش ہے نہ غضب وانتقام ! کیا تم اس کے طلبگار نہیں کہ خدا تمہارے قصور بخش دے؟ لیکن اگر تم اس کے بندوں کے قصور نہیں بخش سکتے تو تمہیں کیا حق ہے، اپنے قصوروں کے لیے اس کی بخشش کی طلب گاری کرو؟ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ کو جب معلوم ہوا کہ ان کے بعض رشتے داروں نے حضرت عائشہ کے خلاف بہتان لگانے میں حصہ لیا تو انہوں نے قسم کھائی ایسے لوگوں کو آئندہ کچھ مدد نہ دیں گے، چنانچہ حضرت ابوبکر نے بھی اپنے ایک رشتے دار مسطح بن اثاثہ کی اعانت سے ہاتھ کھینچ لیا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔” ولا یاتل“ کاترجمہ عام طور پر یہ کیا گیا ہے کہ قسم نہ کھائیں، اور اسے، الیۃ، سے مشتق سمجھا گیا ہے جس کے معنی قسم کے ہیں۔ لیکن زیادہ قوی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ قصر اور کمی کرنے کے معنوں میں بولا گیا ہو اور الوت فی کذا، اذا قصرت سے ماخوذ ہو، چنانچہ عام طور پر بولتے ہیں، لم آل جھدا ای لم اقصر، ومنہ قول الشاعر، وما المرء مادامت حشاشۃ نفسہ۔۔۔۔ بمدرک اطراف الخطوب والاآل۔ سب سے زیادہ قوی قرینہ اس کی تائید میں یہ ہے کہ خود قرآن نے دوسری جگہ یہ مادہ اسی معنی میں استعمال کیا ہے (لایالونکم خبالا۔ ٣۔ ١١٨)۔