الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ
زنا کرنے والی عورت (٢) اور زنا کرنے والے مرد میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو، اور اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، تو تمہیں اللہ کے دین کے معاملے میں ان دونوں پر ترس نہیں کھانا چاہیے، اور ان دونوں کو سزا دیتے وقت مومنوں کی ایک جماعت کو موجود رہنا چاہیے۔
(٣)۔ زنا ایک ایسی برائی ہے جسے ہر زمانے میں اخلاقی اور معاشرتی طور پر برا سمجھا گیا ہے اور قرآن نے کبائر کے بیان میں شرک کے ساتھ اسے بھی ذکر کیا ہے مذکورہ سزا کے علاوہ قرآن نے اس کے ذرائع سے بھی دور رہنے کا حکم دیا ہے اور اسے بڑی ہی بے حیائی کی بات اور بڑی برائی کا چلن قرار دیا ہے دراصل نوع انسانی کی بقا اور انسانی تمدن کا قیام دونوں اس بات کے متقاضی ہیں کہ عورت ومرد کا تعلق کسی قانونی اور اخلاقی ضابطہ کے تحت قائم ہونا چاہیے تاکہ انسانی خاندان وجود میں آئیں اور ان پر تہذیب وتمدن کی عمارت قائم ہوسکے لیکن اگر عورت اور مرد کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو انسان کی اجتماعی زندگی تباہ ہو کر رہ جاتی ہے اور انسانی تمد کی تعمیر نہیں ہوسکتی لہذا زنا کی حرمت انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ اجتماعی زندگی کی سب سے بڑی بنیادنکاح مدنی ہے یعنی یہ بات کہ ایک مرد اور ایک عورت ازدواجی زندگی بسر کرنے کے لیے جنسی رفاقت واشتراک کا عہد کرلیں اور پھر صرف ایک دوسرے ہی کے لیے ہو کر جئیں۔ زنا ٹھیک ٹھیک اس کی ضد ہے یہ مرد اور عورت کو اشتراک حیات کے لیے نہیں، بلکہ محض نفسیاتی تقاضے کی عارضی تسکین کے لیے جمع کرتا ہے اور ازدواجی زندگی کے تمام معاشرتی احساسات فنا کردیتا ہے جس سوسائٹی میں زناکادروازہ کھلا رہے گا وہ کبھی ازدواجی زندگی کی استواری حاصل نہیں کرسکے گی۔ اور اگر ازدواجی زندگی استوار نہ ہوئی تو اجتماعی زندگی کی ساری بنیادیں ہل گئیں یہی وجہ ہے کہ یہاں پہلے اس فساد کی شناعت پر زور دیا پھر اس کی سزا کا ااعلان کیا اصطلاح میں ان سزاؤں کو حد کہتے ہیں۔