قَالُوا أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ
کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے تو ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔
تخلیق و تکمیل جنین کے مراتب ستہ : قرآن حکیم نے اس سورت میں اور دوسرے مقامات میں انسانی پیدائش کے مختلف احوال پر توجہ دلائی ہے اور ان سے اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت اور بعث بعد الموت کے وقوع پر استشہاد کیا ہے۔ یہ مراتب تطور چھ ہیں۔ جیسا کہ یہاں آیت (١٣) میں بیان کیے گئے ہیں : (ا) نطفہ : کی حالت جبکہ وہ قرار مکین میں ہوتا ہے۔ (ب) علقہ کی حالت۔ (ج) مضغہ کی حالت۔ (د) خلقنا المضغۃ عظاما کی حالت۔ (ہ) کسونا العظام لحما۔ (و) ایک ایسی آخری حالت جسے خلقا آخر سے تعبیر کیا ہے۔ مفسرین کی حیرانی : ان میں سے آخری حالت کو قرآن نے خلقا آخر سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی اس مرتبہ میں پہنچ کر ایسا انقلاب طاری ہوجاتا ہے کہ بالکل ایک دوسری ہی طرح کی خلقت ظہور میں آجاتی ہے۔ گویا مرتبہ (الف) سے لے کر مرتبہ (ہ) تک جنین کی جو حالتیں رہیں اور جس نوعیت کی مخلوق بنتی رہی، وہ کوئی دوسری طرح کی چیز تھی اور اب اس مرتبہ میں آکر بالکل ایک دوسری طرح کی چیز نمایاں ہوگئی۔ چونکہ مراتب پیدائش کی کوئی ایسی انقلابی حالت ہمارے مفسروں کے سامنے نہ تھی اس لیے قدرتی طور پر اس کی کوئی جمتی ہوئی تفسیر ان سے بن نہ اائی اور مختلف وادیوں میں نکل گئے۔ بعضوں نے کہا اس سے مقصود نفخ روح کی حالت ہے، کیونکہ اس مرتبہ سے پہلے روح نہیں ہوتی۔ بعضوں نے کہا یہ شکم مادر سے باہر نکلنے کی طرف اشارہ کیا کیونکہ وضع حمل اسی کے بعد ہوتا ہے۔ بعضوں نے کہا مقصود بالوں کا پیدا ہونا ہے۔ اس سے پہلے بال نہیں ہوتے، بعضوں نے کہا، نہیں مقصود دانت ہیں، دانت اسی مرتبہ میں پیدا ہوتے ہیں، بعضوں نے جمع و تطبیق آراء کی راہ اختیار کرنی چاہی تو کہا، دراصل مقصود تمام قوی کی تکمیل ہے۔ اس میں بال بھی آگئے، دانت بھی آگئے، مگر ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی تفسیر بھی خلقا آخر کا تقاضا پورا نہیں کرتی، منطوق کے اعتبار سے بھی اور مفہوم کے اعتبار سے بھی۔ اسی طرح پچھلے مراتب تطور کی بھی حقیقت واضح نہ ہوسکی۔ علقہ کو جمے ہوئے خون کے معنوں میں لے گئی اور مضغہ کو گوشت بن جانے کے معنوں میں، اور ترتیب نشاۃ یوں سمجھی گئی کہ پہلے خون پیدا ہوتا ہے اور وہ کلیجی کی طرح جما ہوا ہوتا ہے، پھر یہ منجمد خون گوشت بن جاتا ہے، پھر اس گوشت میں ہڈیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پھر ہڈیوں پر چمڑا چڑھ جاتا ہے، اس چمڑے کو کسونا العظام لحما میں مجازا لحم کہا ہے۔ مفسرینن قدیم معذور تھے : لیکن اگر اس مقام کی شرح و تحقیق کا حق ادا نہ ہوسکا تو اسے مفسروں کے قصور فہم پر محمول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس باب میں وہ یقینا معذور تھے، علم و تحقیق کا یہ گوشہ تمام تر زمانہ حال کی پیداوار ہے اور زمانہ حال کی پیداوار میں بھی سب سے آخری عہد کی پیداوار۔ انیسویں صدی کا ابتدائی زمانہ جو تمام علوم حدیثہ کے انشکاف و تکمیل کا سب سے زیادہ شاندار زمانہ ہے، پورا گزر گیا اور کارخانہ فطرت کے اس گوشہ مستور کے تمام حجاب نہ اٹھ سکے۔ پس اگر اٹھارویں صدی کے حکما معذور تصور کیے جاسکتے ہیں اس بارے میں بالکل غلط رخ پر جارہے تھے حالانکہ خورد بین ایجاد ہوچکی تھی اور انسانی نعش کی تشریح کا باب مسدود کھل چکا تھا۔ تو ظاہر ہے نودیں اور دسویں صدی کے مفسرین قرآن کیوں معذور تصور نہ کیے جائیں جن کے سامنے اس سے زیادہ کچھ نہ تھا جتنا ارسطو اپنی کتاب الحیوانات میں اور جالینوس اپنے مقامات میں لکھ چکا ہے؟ علم الجنین کی مختصر تاریخ : دراصل پیدائش حیوانات کے بارے میں گزشتہ دو ہزار سال تک انسانی علم کی پرواز اسی حد تک رہی۔ علم و نظر کی تمام شاخوں کی طرح علم الجنین (Embryology) میں بھی ارسطو ہی کی تحقیقات پر تمام تر دارومدار تھا۔ ستریوں صدی میں جب خرد بین کی ایجاد ایک خاص حد تک ترقی پذیر ہوئی تو پرندوں کے انڈوں کا خرد بینی مطالعہ شروع ہوا اور بتدریج ایک نئے نظریے کی بنیاد پڑگئی جسے اس وقت نظریہ ارتقا سے تعبیر کیا گیا تھا لیکن اب نمود بروز کے نظریہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی (Preformation Theory) سے۔ اس نظریہ کا ماحصل ہے تھا کہ پیدائش جنس اناث کا مبیض (ovary) ہے۔ جنین پر تطورات کی کوئی نئی حالت طاری نہیں ہوتی بلکہ مبیض میں جو کامل وجود موجود ہوتا ہے وہی کھلنے اور بڑھنے لگتا ہے۔ مثلا انسان کے تخم حیات میں ایک کامل انسان اپنے تمام خارجی و داخلی اعضاء کے ساتھ موجود ہوتا ہے لیکن اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ فرد بین سے بھی اس کا ادراک نہیں کیا جاسکتا۔ اسی کامل و متشکل ذرہ وجود کا بڑھ جانا نطفہ کا انسان بن جانا ہے۔ ١٦٩٠ ء میں جب ایک ڈچ عالم خرد بینی لیون ہاک (Leeuwenhock) نے جسن رجال کے مادہ منویہ کے جراثیم کا انکشاف کیا، تو ایک گروہ پیدا ہوگیا جس نے مبیض اناث کی جگہ جراثیم منویہ کو اصل حیات قرار دیا۔ تاہم اس رائے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی کہ جنین پر تطور کی نہیں بلکہ محض بروز نمود کی حالت طاری ہوتی ہے۔ اٹھارویں صڈی کے وسف تک یہی رائے وقت کی مقبول و معتمد رائے رہی۔ یہاں تک کہ ١٧٥٩ ء میں ایک جرمن محقق فریڈرک ولف نے یہ پورا نظریہ غلط ٹھہرایا اور تولید و تطور کے اصل پر زور دیا۔ پھر ١٨١٧ ء میں پاندر نے اور ١٨٢٨ ء میں بیر نے اسے مزی ترقی دی۔ اسکے بعد اسے اری رخ پر قدم اٹھنا شروع ہوگئے۔ پھر جب ١٨٥٩ ء میں ڈارون کی کتاب اصلیت انواع شائع ہوئی تو اس نے علم کے تمام گوشوں کی طرح اس گوشہ کے لیے بھی ایک نئی روشنی مہیا کردی اور بالآخر انیسویں صدی کے آخری سالوں میں ارنسٹ ہیکل (Ernst Haeckel) کے ہاتھوں یہ تحقیقات تکمیل تک پہنچ گئی۔ اب علم الجنین کا ہر گوشہ نظریوں اور قیاسوں کے سہاروں سے بالکل بے پروا ہوگیا ہے اور جو کچھ ہے تمام تر استقرا و مشاہدات پر مبنی ہے۔ یہ اب فلسفہ کی بحث و تعلیل کا محتاج نہیں۔ کیونہ خود علم کی ایک حقیقت ہے۔ اس باب میں سب سے زیادہ معتمد خود ارنسٹ ہیکل کی دو کتابیں ہیں۔ نیچر ہستری آف کرییشن اور ایوو لیوشن آف مین۔ اس مبحث میں ہمارا اعتماد انہی پر ہے۔ جدید تحقیقات : قبل اس کے کہ قرآن کے بیان کردہ مراتب پر نظر ڈالی جائے معلوم کرلینا چاہیے کہ انسانی وجود کی پیدائش اور اس کے جنین کے احوال و تطورات کے باب میں علم کے حقائق کیا ہیں؟ یہ مبحث بتفصیل مقدمہ میں ملے گا۔ یہاں مختصرا اشارات کریں گے۔ تمام حیوانات کی طرح انسان کی پیدائش بھی ایک بیضہ سے ہوتی ہے جسے اصطلاح میں (ovum) کہتے ہیں۔ یعنی خلیہ تخم (خلیہ یعنی Cell) یہ خلیہ تخم : جنس اثاث میں بھی پیدا ہوتا ہے اور جنس رجال میں بھی، فعل تلقیح اس وقت واقع ہوتا ہے جب جنس رجال کے خلیات تخم جنس اناث کے بیضہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ خلیہ تخم ایک بہت ہی دقیق ذرہ کا سا حجم رکھتا ہے۔ یعنی اس کا قطر ایک انچ کا ایک سو بیسواں حصہ بلکہ اس سے بھی کم ہوتا ہے، یہی خلیہ زندگی اور وجود کا اصلی تخم ہے۔ نطفہ کے قرار پانے کے معنی یہ ہیں کہ جنس رجال کا خلیہ تخم جنس اناث کے مبیض میں جگہ پائے۔ استقرار کے بعد جنین کا تطور شروع ہوتا ہے۔ ابتدا میں وہ محض خلیات کا ایک کروی مجوعہ ہوتا ہے۔ پھر ایک مجوف گیند کی سی شکل اختیار کرلیتا ہے جس کے اطراف کی دیوار خلیات سے مرکب ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ خلیات ایک دوسرے سے بالکل مل جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان میں طولانیت پیدا ہونی شروع ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بالکل ایک فعل نما (Sole Shaped) صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ اب ان میں ایک ایسی ہیکلی ہیئت پیدا ہوتی ہے جیسی مچھلی کی ہوتی ہے۔ پھر یہ ہیئت حیوانات قوازب (Abphibia) کا سا ہیکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس کے بعد حیوانات لبونہ (Mammals) کا ہیکل نمایاں ہوتا ہے۔ لیکن پہلے ادنی درجہ کے حیوانات لبونہ کا، مثلا ایسا جیسا آسٹریلیا کے خلد آبی (Duck Bill) کا ہوتا ہے یا ان حیوانات کا جنہیں ذوات الکیس (Marsupils) کہتے ہیں۔ پھر اونچے درجہ کے حیوانات لبونہ کا۔ مثلا گھوڑا، کتا، بیل۔ پھر یہ مرتبہ ترقی کر کے ایک ایسے ہیکل تک پہنچتا ہے جو ٹھیک ٹھیک بندر کا سا ہوتا ہے۔ دم بھی موجود ہوتی ہے۔ پھر اس میں تبدیلی شروع ہوتی ہے اور بندر کے ترقی یافتہ اعلی اقسام کا سا ہیکل نمایاں ہونے لگتا ہے۔ یعنی گوریلا، شمپازی، گیبون وغیرہ اقسام کا۔ اب اس کے بعد آخری مرتبہ تطور آتا ہے اور اچانک ایک انقلاب حالت طاری ہونے لگی ہے۔ یعنی تمام حیوانی و میمونی خصوصیات مفقود ہوجاتی ہیں، ایک نئی نوعیت کا ہیکل نمایاں ہوجاتا ہے اور وجود انسانی اپنی ساری خصوصیتوں اور رعنائیوں کے ساتھ ابھر آتا ہے۔ ابتدا کے تمام تطورات ایک مہینے کے اندر طاری ہوجاتے ہیں۔ آخری تطورات دوسرے مہینے کے اندر اور پھر حمل کا بقیہ زمانہ جس قدر گزرتا ہے صورت انسانی ہی کی تکمیل پر گزرتا ہے۔ قانون حیات کی عالمگیر وحدت : اس سلسلہ میں جو حقیقت سب سے زیادہ اہم نمایاں ہوئی ہے اور جس نے علم و نظر کے بہت سے گوشوں میں انقلاب پیدا کردیا وہ پیدائش حیات کے قانون کی عالمگیر وحدت ہے۔ نباتات سے لے کر وجود انسانی تک اصل و بنیاد حیات ایک ہی ہے اور جس قدر امتیازی اختلافات پیدا ہوتے ہیں ٹھیک ٹھیک انہی حدود کے اندر اور انہی ترتیبات سے جو قانون نشو نما ارتقا کی بنا پر ضروری ہیں۔ اس اعتبار سے اگر انسان کے جنین پر نظر ڈالی جائے تو حسب ذیل مدارج اور ان کے احکام سامنے آئیں گے۔ مدارج تطور : پہلا درجہ وہ ہے جس میں خلیہ تخم کی حالت ٹھیک ٹھیک ویسی ہی ہوتی ہے جیسی تمام نباتات اور حیوانات کی۔ گویا اس ابتدائی درجہ میں ایک انسان کا جنین بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ایک درخت کا، ایک مچھلی کا، ایک چار پائے کا، ایک پرند کا۔ یہ حالت نطفہ کی ابتدائی حالت ہوتی ہے۔ (ب) پھر خلیات کا کروی مجموعہ ایک دوسرے درجہ میں داخل ہوتا ہے۔ اس درجہ میں پہلا امتیاز نمایاں ہوتا ہے، یعنی اب جنین نباتات کے دائرہ سے بلند ہو کر صرف حیوانات کے دائرہ کی چیز بن جاتا ہے، ہم تمام حیوانات کا جنین ایسا ہی پاتے ہیں مگر نباتات کا نہیں۔ یہ حالت دو ہفتہ کے اندر طاری ہوجاتی ہے۔ (ج) تیسرے ہفتہ میں جنین دوگنی طوالت پیدا کرلیتا ہے اور نعل کی سی شکل بن جاتی ہے، نیز ایک نشان ظاہر ہوجاتا ہے جو آگے چل کر سر بننے والا ہوتا ہے۔ یہی نشان تین بنیادی حاسوں کی پہلی داغ بیل ہے۔ اس درجہ میں دوسرا امتیاز نمایاں ہوتا ہے، یعنی اب جنین حیوانات کے عام دائرہ سے نکل کر حیوانات لبونہ کے خاص دائرہ میں آجاتا ہے لیکن ادنی درجہ کے دائرہ میں۔ (د) چوتھے ہفتہ میں سر کا نشان ایک غیر متشکل گنبد کی سی ہیئت پیدا کرنے لگتا ہے، اس کے اندر بھیجے کے چاروں خانے بھی نمایاں ہوجاتے ہیں، عنصری نالیوں بھی ابھر آتی ہیں، دل کے چاروں حصے بھی وجود پذیر ہوجاتے ہیں، اور سب سے زیادہ یہ کہ ریڑھ کی ہڈی کا ڈھانچہ پوری طرح نشوونما پانے لگتا ہے۔ اس درجہ میں پہنچ کر جنین اعلی درجہ کے حیوانات لبونہ کی خصوصیات پیدا کرلیتا ہے۔ یعنی اب انسان کا جنین ایسا ہوجاتا ہے جیسا گھوڑے، بیل کتے وغیرہ شیر خوار جانوروں کا ہوتا ہے۔ اب حمل کا پہلا مہینہ ختم ہوگیا۔ (ہ) پانچویں ہفتہ سے صورت آرائی کا زیادہ مشخص دور شروع ہوتا ہے، لیکن یہ بندر کے سے ہیکل کا ہوتا ہے۔ اس درجہ کے جنین کی تصویر بندر کے جنین کی تصویر کے ساتھ رکھی جائے تو دونوں میں کوئی نمایاں فرق دکھائی نہیں دے گا۔ (و) پھر یہ ہیکل بندر کی اونچی قسم کے ہیکلوں کی طرف بڑھتا ہے اور گوریلا شمپازی وغیرہ کے جنین کی سی ہیئت پیدا کرنے لگتا ہے۔ (ز) اس کے بعد ایک آخری انقلاب طاری ہوتا ہے اور انسانی جسم و صورت کی خصوصیات یکایک ابھرنے لگتی ہیں حتی کہ بالکل ایک نئی قسم کا تناسب و اعتدلال ظہور میں آجاتا ہے۔ دوسرے مہینے کے اختتام پر یہ درجہ پوری طرح صورت پذیر ہوجاتا ہے۔ (ح) اس کے بعد فطرت کی نقاشی زیادہ دقیق قسم کے امتیازات کا نوک پلک درست کرنے لگی ہے۔ یعنی نوع انسانی کے مختلف وقتی، موسمی، نسلی اور معنوی اختلافات ابھرنے اور بننے لگتے ہیں۔ پھر جدی اور آبائی اثرات کی نمود شروع ہوتی ہے اور ہر والدین کو اپنی قوم، اپنے ملک، اپنی نسل اور اپنے ماحولی موثرات کا مولود میسر آجاتا ہے۔ یہ آخری انسانی دور سب سے بڑا دور ہے، یعنی ابتدا کے دو مہینے چھوڑ کر باقی تمام ایام حمل جن کی مدت چار سے سات مہینوں تک پہنچ جاتی ہے اسی دور میں بسر ہوتے ہیں۔ قرآن کی تصریحات : اب ان تمام تفصیلات کو پیش نظر رکھ کر قرآن کی تصریحات پر غور کرو۔ اور پچھلی تفاسیر پر بھی ایک نظر ڈال لو۔ جس وقت تک انسانی جنین کے یہ تمام حقائق منکشف نہیں ہوئے تھے قرآن کے بیان کردہ مدارج ستہ کی تشریح کس درجہ دشوار تھی ؟ قدیم نظروں کا ساتھ دینے کے لیے مفسروں کو کیسی کیسی توجیہیں ڈھونڈنی پڑیں اور پھر بھی بات بنی نہیں؟ لیکن اب ان انکشافات کے بعد کس طرح سارا معاملہ صاف ہوگیا ہے ؟ کس طرح دونوں بیان ٹھیک ٹھیک ایک دوسرے کے مطابق ہیں اور ایک کے اجمال کی دوسرا تفصیل کر رہا ہے ؟ کس طرح آج علم کی آنکھیں بھی وہی دیکھ رہی ہیں جو وحی کی زبان نے آشکارا کردیا تھا؟ وحی کی یہ صدا کس کی زبان سے نکلی تھی ؟ ساتویں صدی عیسوی کے ایک امی کی زبان سے جو ریگستان عرب کے بادیہ نشینوں میں پیدا ہوا اور جس کی ساری زندگی انہی بادیہ نشینوں میں بسر ہوئی تھی۔ قرآن کا سترھویں صدی کے نظریہ سے انکار : سترہویں صڈی میں خرد بینی مطالعہ سے جراثیم حیات کا انکشاف ہوا، لیکن حکمائے اسل عہد حقیقت پر مطلع نہ ہوسکے اور مذہب ظہور و بروز کا نظریہ قائم کرلیا گیا۔ اب دیکھو جس طرح قدیم قیاسات قرآن کا ساتھ نہیں دیتے تھے اسی طرح یہ مذہب بھی ساتھ چلنے سے صاف انکار کر رہا تھا۔ قرآن جنین کے تمام تغیرات کو صاف صاف ایک انقلابی تطور قرار دے رہا ہے۔ (ثم من نطفۃ ثم من علقۃ ثم من مضغۃ) اور (ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلنا العلقۃ مضغۃ) یعنی تخلیق کی ایک حالت نطفہ کی ہوتی ہے، پھر تخلیق کی دوسری حالت علقہ ہوتی ہے، پھر تخلیق کی تیسری حالت مضغۃ ہوتی ہے، پس یہ محض کسی ایسے کیڑے کا نشو بروز نہیں ہوسکتا جس کے اندر وجود انسانی اپنے تمام اصول و جزئیات کے ساتھ موجود ہو، بلکہ ایک حالت کے بعد صریح دوسری حالت کی پیدائش اور دوسرے کے بعد تیسرے کی اور تیسرے کے بعد چوتھے کی پیدائش ہے اور ہر پیدائش تخلق و تطور کی نوعیت میں ظاہر ہوئی ہے۔ ضروری ہے کہ یکے بعد دیگرے طرح طرح کے تطورات طاری ہوں۔ ضروری ہے کہ ہر تطور ایک نئی پیدائش کا حکم رکھتا ہو۔ جدید مفسرین کی بے نتیجہ و برید : چونکہ انیسیوں صدی کے اواخر تک یہی نظریہ ظہور و بروز عام طور پر تسلیم کیا جاتا تھا اور فن طب و تشریح نے بھی اسی کو اختیار کرلیا تھا جس طرح قدیم مفسروں کو شرح و تحقیق آیت میں دشواریاں پیش آئیں اور طرح طرح کی توجیہات کرنی پڑیں، اسی طرح مصر اور ہندوستان کے بعض نئے مفسروں کو بھی ٹھوکر لگی اور رفاعہ بک طہطاوی، حسن پاشا محمود، سرسید احمد خاں، شیخ محمد عبدہ وغیرہم اسی نظریہ کی وادیوں میں گم ہوگئے۔ انہوں نے کوشش کی کہ قرآن کی تصریحات کو اس کے مطابق کر دکھائیں، مطابق ہو نہیں سکتی تھی اس لیے ہر طرح کا تجوز و تکلف جو لغت و زبان سے کیا جاسکتا ہے، جائز کرلیا گیا۔ اور نہیں سمجھے کہ یہ تمام قطع و برید چند سالون کے بعد یکسر بیکار ہوجائے گی۔ قرآن اپنی جگہ سے نہیں ہلا مگر علم کو ہلنا پڑا : لیکن قرآن کی تصریحات اپنی جگہ بدستور قائم رہیں۔ جس طرح قدیم جامہ ان پر راست نہیں آیا تھا، اسی طرح نئے جامے سے بھی انہوں نے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ جمال حقیقت بے پردہ ہوا، اور نظریوں کی شب کوری کی جگہ انکشاف و مشاہدہ کی صبح نمودار ہوگئی۔ اب ہر نگاہ دیکھ لے سکتی ہے کہ قرآن کو اپنی جگہ سے ہلنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ یہ علم کا نقص تھا کہ صحیح جگہ نہ پاسکا۔ آخر اسے اپنی جگہ چھوڑنی پڑی اور وہیں آگیا جہاں تیرہ صدیوں سے قرآن کی صداقت جمی کھڑی ہے۔ (لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ، تنزیل من حکیم حمید) تم علم کی ایک ذرا سی نمود دیکھ کر مرعوب ہوجاتے ہو اور چاہتے ہو قرآن کو فورا اس کی جگہ سے ہٹا دو۔ لیکن اگر تم جلدی نہ کرو تو قرآن کو ہلنے کی ضرورت کبھی نہ ہوگی۔ جلد یا بہ دیر علم اپنی جگہ چھوڑے گا اور آگے بڑھ کر قرآن کی تصدیق کرے گا۔ اب غور کرو، علم کی روشنی میں کس طرح قرآن کی تمام تصریحات واقع ہورہی ہیں، بغیر اس کے کہ لغت و زبان کے قدرتی مقتضیات سے رائی برابر بھی انحراف کیا جائے؟ قرآن کے مدارج ستہ : سب سے پہلے (جعلناہ نطفۃ فی قرار مکین) پر غور کرو۔ استقرار حمل یوں ہوتا ہے کہ جنس رجال کا جنسی خلیہ جنسی اناث کے مبیض میں پہنچتا ہے اور اس طرح ٹک جاتا ہے گویا اپنے اصلی مکان میں پہنچ گیا۔ اس صورت حال کے لیے (فی قرار مکین) کی ترکیب کس درجہ صحیح اور اوفق ہے؟ دو لفظوں کے اندر پوری وضاحت کے ساتھ دونوں حالتیں آگئیں۔ اس کا ٹھہر جاتا اور تمکن کے ساتھ قرار پاجانا۔ یہ استقرار و تمکن کس طرح پیدا ہوا؟ دونوں جنسوں کے خلیوں کے اتحاد سے، اس اتحاد و امتزاج کی ان میں قدرتی طلب تھی۔ بغیر اس کے قرار نہیں پاسکتے تھے۔ اس وقت تک ہم نے اس کا مطلب یہ سمجھا تھا کہ نطفہ رحم میں قرار پا جاتا ہے لیکن فی الحقیقت بات پوری طرح جمتی نہ تھی۔ رحم تو ایک طرح کا مجوف خول ہے اس میں ایک ذرہ تخم کا پڑجانا (فی قرار مکین) سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تعبیر کہہ رہی ہے کہ کوئی نطفہ ہی کی طرح کا دقیق محل ہونا چاہیے جہاں وہ پہنچ کر اس طرح ٹک جائے جیسے ٹھیک اپنے حجم اور اپنی نوعیت کے مطابق ایک جگہ اسے مل گئی۔ پس یقینا اس سے مقصود مبیض کا خلیہ ہے، نہ کہ پورا عضو رحم۔ اس کے بعد نطفہ پر مختلف حالتیں طاری ہوتی ہیں لیکن سب سے پہلی انقلابی حالت کون سی ہوتی ہے جو بالکل ایک نئی قسم کی نوعیت پیدا کردیتی ہے؟ اور جو تمام آئندہ انقلابوں کے لیے سنگ بنیاد کا کام دیتی ہے؟ وہ حالت، جب خلیات کا کروی مجموعہ اچانک طول میں بڑھنے لگتا ہے اور پھر اس طرح کی لمبی چیز بن جاتا ہے جس کے دونوں سرے کسی قدر پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ پروفیسر ہیکل نے اس مرتبہ کی ابتدائی حالت کو (Sole Shaped) سے اور پختہ حالت کو (Sandal Shaped) سے تعبیر کیا ہے۔ اور ہم نے اس کے لیے صرف نعل نما حالت کی تعبیر اختیار کی ہے۔ اسی مرتبہ تحول کو قرآن نے علقہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ علقہ کی تعبیر اس مرتبہ کے لیے ہر اعتبار سے اتنی صاف اور چسپاں تعبیر ہے کہ جونہی میری پہلی نظر اس نعل نما جنین کی تصویر پر پڑی تھی، میری زبان سے بے اختیار خلق الانسان من علق نکل گیا تھا۔ جونک کے لیے علوق، علوقہ، عولق، علقہ سامی زبانوں کی نہایت قدیم تعبیر ہے۔ عبرانی میں اسے علقوہ کہتے تھے اور بجنسہ علقہ کا نام بھی ملتا ہے۔ چنانچہ سفر امثال میں ایک جگہ آیا ہے، جونک کی دو بیٹیاں ہیں جو چلاتی رہتی ہیں کہ لاؤ، لاؤ۔ (١٥: ٣٠) عبرانی نسخہ میں یہاں جونک کے لیے علوقہ کا لفظ ہے۔ یہی علوقہ عربی میں علق اور علقہ ہے، اور جونک کے لیے مستعمل ہے۔ اب جونک کی حالت اور صورت کا معائنہ کرو، اس میں ہڈی نہیں ہوتی، محض ایک لوتھڑے کی لمبان ہوتی ہے اور خون پی کر جب سیراب ہوجاتی ہے تو ٹھیک ٹھیک ویسی ہی صورت ہوجاتی ہے جیسی اس مرتبہ جنین کی تصویر میں نظر آتی ہے۔ علقہ کی تعبیر : ہیکل نے اس حالت کو محض اس کی جزئی مشابہت کی بنا پر نعل نما صورت سے تشبیہ دی ہے لیکن قرآن نے علقہ سے دی جو خود سلسلہ حیوانات کی ایک خاص زندہ کڑی ہے اور اس طرح عجب نہیں کہ ایک دوسری مخفی حقیقت کی طرف بھی اشارہ کردیا ہو۔ پیدائش انسانی کے مختلف مدارج کی جو تفصیلات اوپر گزر چکی ہیں ان سے تمہیں پتہ لگ گیا ہوگا کہ قانون نشووار تقا کے مختلف مدارج کس طرح نطفہ انسانی کے مدارج میں جمع ہوگئے ہیں اور کس طرح ہر انسان کا جنین اب بھی ان مدارج سے گزر کر انسان بنتا ہے جن مدارج سے گزر کر انسان اپنے موجودہ مرتبہ خلقت تک پہنچا ہے۔ اچھا اب غور کرو، ان مدارج خلقت میں ابتدائی مخلوقات کا درجہ کون سا ہے؟ آبی مخلوقات کا، یعنی بحکم (وجعلنا من الماء کل شیء حی) زندگی کا سب سے پہلا ظہور پانی میں ہوا۔ اور پہلی مخلوقات آبی مخلوقات ہوئی، ان کے بعد خشکی کی مخلوقات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اچھا آبی مخلوقات میں ابتدائی مراتب کی مخلوقات کون سی ہیں؟ جونک کی قسم کی غیر عظمی مخلوقات، انہی کے ارتقا سے تمام اونچی قسم کی آبی کڑیاں وجود پذیر ہوئیں۔ پس اگر حیوانی نطفہ اپنے تمام ارتقائی تطورات سے گزر کر آخری درجہ تک پہنچا کرتا ہے تو کیا ضروری نہیں کہ اس کا ابتدائی درجہ آبی مخلوقات کی حالت کے درجہ کاہو؟ اور اس میں بھی سب سے پہلے جونک کی قسم اسے علقہ سے تعبیر کرنا گویا اس کے درجہ خلقت کو ٹھیک ٹھیک اس کے اصلی نام سے پکار دینا ہے۔ اس کے بعد تیسرا انقلابی تطور وہ ہے، جب یہ فعل نما چیز اور زیادہ بڑھتی ہے اور اس کے مادہ میں گوشت کی صلابت پیدا ہوجاتی ہے، اسی حالت کو قرآن نے مضغہ سے تعبیر کیا ہے۔ کیونکہ اب جنین بوٹی کی طرح بن جاتا ہے اور چونکہ یہی مرتبہ ہے جس میں ارتسام و انقسام اعضا کی پہلی داغ بیل پڑتی ہے، اس لیے سورۃ حج میں اشارہ کردیا کہ (مخلقۃ و غیر مخلقۃ) یعنی یہی مضغہ کا درجہ ہے جس میں یا تو داغ بیل پڑجاتی ہے یا بگڑ کے رہ جاتا ہے۔ چوتھا درجہ وہ ہے جب اس مضغہ میں ریڑھ کی ہڈی کا ڈھانچہ نشو ونما پانے لگتا ہے اور ایک ایسا ہیکل نمایاں ہوجاتا ہے جسے مچھلی سے مشابہ کہا گیا ہے اسی کو (فخلقنا المضغۃ عظاما) سے تعبیر کیا ہے۔ اسی درجہ میں آکر جنین حیوانات فقاریہ (Vertebrate) کی امتیازی خصوصیات پیدا کرلیتا ہے۔ پھر اس کے بعد ہڈیوں اور گوشت پوست کا التحاق تکمیل تک پہنچتا اور ایک حیوانی متشکل ہو کر نمایاں ہوجاتی ہے۔ اسی کو (فکسونا العظام لحما) کے درجہ سے تعبیر کیا ہے۔ خلقا آخر : لیکن جو صورت اب بنتی ہے وہ کیا انسان صورت ہوتی ہے؟ نہیں ایسی جو تمام حیوانات لبونہ کی مشترک صورت ہوتی ہے، وہ ترقی بھی کرتی ہے تو بندر کی صورت کی طرف، لیکن اس کے بعد نقاش قدرت کی دستکاری اچانک ایک نیا انقلاب و تحول پیدا کردیتی ہے۔ وہی جنین جو محض مضغہ تھا، وہی مضغہ جو مچھلی کی طرح کا ایک ڈھانچا تھا، وہی ڈھانچا جس نے عام حیوانی ہیکل کی شکل اختیار کرلی تھی، وہی حیوانی ہیکل جو بندر کی سی صورت میں ابھر آیا تھا، اچانک انسانی جسم و صورت کی ساری خصوصیتیں اور رعنائیاں پیدا کرلیتا ہے (فتبارک اللہ احسن الخالقین) یہی آخری مرتبہ تحول ہے جسے (ثم انشاناہ خلقا آخر) سے تعبیر کیا ہے۔