وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ بَلْ أَتَيْنَاهُم بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَن ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ
اور اگر دین حق ان کی خواہشات کے تابع (٢١) ہوجاتا، تو آسمانوں اور زمین اور اس میں پائی جانے والی ہر چیز میں فساد برپا ہوجاتا، ہم ان کے لیے ان کی نصیحت لے کر آئے ہیں، پس وہ اپنی نصیحت سے منہ پھیر رہے ہیں۔
آیت (٧١) میں ایک بہت بڑی اصل کائنات کی طرف اشارہ کیا ہے جو قرآن کے مہمات معارف میں سے ہے۔ یعنی قرآن جس حقیقت کو حق سے تعبیر کرتا ہے وہ محض کسی ایک گوشہ ہی کی حقیقت نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر سمجھا گیا ہے کہ بلکہ اصل کائنات کی ایک عالمگیر حقیقت ہے۔ وہ کہتا ہے یہاں اصل تخلیق و تکوین حق اور قیام حق کا قانون ہے۔ اسی کا نام عدل و قسط بھی ہے اور اسی پر تمام نظام کائنات قائم ہے۔ عالم جسم و مادہ کا ایک ایک گوشہ دیکھو، تمہیں ہر گوشہ میں وجود، تکوین، تعمیر، ایجاب، زندگی، بناؤ کی اصل یہی حقیقت ملے گی۔ یہی حقیقت جب افکار و اعمال انسانی میں ظاہر ہوتی ہے تو اسکا نام ایمان اور عمل صالح ہوجاتا ہے، اور یہی حقیقت ہے جس کی طرف ہدایت وحی بلاتی ہے۔ یہاں فرمایا اگر حقیقت ان منکرین حق کی خواہشوں کی پیروی کرے تو تمام نظام ارضی و سماوی درہم برہم ہوجائے کیونکہ انہیں معلوم نہیں، جس حقیقت سے یہ انکار کر رہے ہیں وہی حقیقت ہے جس پر یہ تمام کارخانہ ہستی چل رہا ہے۔ یہ مقام بہت دقیق ہے، تشریح کے لیے تفسیر فاتحہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔