وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَيْنَاءَ تَنبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلْآكِلِينَ
اور ہم زیتون کا درخت پیدا کرتے ہیں جو طور سینا کے آس پاس زیادہ ہوتا ہے، جو تیل اور کھانے والوں کے لیے سالن لیے اگتا ہے۔
آیت (٢٠) میں خصوصیت کے ساتھ زیتون کے درخت کا ذکر کیا ہے۔ فطرت کے افادہ و فیضان عام کا یہ ایک خاصہ گوشہ ہے۔ اس نے دانوں اور پھلوں میں ہر طرح کی ٹھوس غزا ہی پیدا نہیں کردی بلکہ دہنیت کے ایسے ذخیرے بھی مہیا کردیے جن سے بکثرت تیل نکلتا ہے اور انسان کے لیے نہایت مقوی غذا اور دوا کا کام دیتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ عجیب و نافع درخت زیتون کا درخت ہے۔ اس کا دانہ سرتا سر دہنیت ہے۔ حتی کہ اگر چٹکی میں لے کر زور سے مسل ڈالو تو تیل کے قطرے ٹپکنے لگیں گے۔ خواص کے لحاظ سے کوئی چکنائی اتنی معتدل اور موافق نہیں جتنی زیتون کی ہے۔ شاید بہت کم لوگوں نے اس بات پر غور کیا ہوگا کہ دہنیت کے لیے تمام دنیا کا اعتماد ہمیشہ سے نباتاتی دہنیت ہی پر رہا ہے۔ اور اس میں بھی خصوصیت کے ساتھ زیتون پر، یہ صرف ہندوستان ہے جہاں مکھن کو گھی بنا کر استعمال کرنے کا رواج پیدا ہوا اور لوگ اسے نباتاتی دہنیت پر ترجیح دینے لگے۔ یہی وجہ ہے دنیا کی دوسری زبانوں میں گھی کے لیے کوئی خاص لفظ نہیں ملتا۔ وہ اس سے آشنا ہی نہ تھے۔ زیتون کے لیے طور سینا کی طرف اس لیے اشارہ کیا کہ منابت زیتون میں سے قریب تر مقام جزیرہ نمائے سینا ہی کا علاقہ تھا۔ گویا زیتون کی اصلی دنیا یہاں سے شروع ہوجاتی ہے۔