سورة الحج - آیت 77

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۩

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو ! تم اپنے رب کے لیے رکوع (٣٩) کرو، اور سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو اور کار خیر کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٧٧) سے آخر تک سورت کے مواعظ کا خاتمہ ہے۔ فرمایا : (ا) اللہ کی بندگی و نیاز میں سرگرم رہو۔ تمہارے سارے کام خیر و صلاح پر مبنی ہوں، اگر حسن عمل کی یہ روح تم میں بس گئی تو پھر تمہارے لیے فلاح ہی فلاح ہے۔ (ب) جہد فی اللہ تمہاری زندگی کا شعار ہو، جہد کے معنی کمال درجہ کوشش کرنے کے ہیں۔ پس مطلب یہ ہوا کہ زیادہ سے زیادہ کوشش جو ایک انسان کسی مقصد کے لیے کرسکتا ہے وہ تمہیں اللہ کے لیے کرنی چاہیے۔ کیونکہ تمہارے مساعی کا نصب العین اس کے سوا اور کچھ نہیں، یہ کوشش نیت سے بھی ہے، زبان سے بھی، مال سے بھی، ہاتھ پاؤں سے بھی۔ (ج) اس نے تمہیں برگزیدگی کے لیے چن لیا۔ (د) اس نے تمہیں دین کی بہتر سے بہتر راہ دکھا دیا، اس بہتری کا معیار کیا ہے؟ یہ کہ کسی طرح کی بھی تنگی اور رکاوٹ اس میں نہیں ہے۔ سب سے زیادہ سہل، سب سے زیادہ سبک، سب سے زیادہ واضح سب سے زیادہ فکر و عمل کی وسعت رکھنے والی۔ حنیفیۃ السمحۃ لیلھا کنھارھا۔ انسان پر فکرو عمل کے ارتقاء کی راہ جس بات نے روک رکھی ہے وہ یہی دین کی تنگی اور رکاوٹ ہے، اس تنگی نے اس طرح انہیں جکڑ بند کر رکھا ہے کہ ایک قدم بھی وسعت و بلندی کی طرف نہیں اٹھا سکتے۔ اللہ نے اس جکڑ بندی سے تمہیں نجات دے دی، اور یہ اس کا بڑے سے بڑا احسان ہے جو کسی انسانی گروہ پر ہوسکتا ہے۔ (ہ) یہ تنگیاں جس قدر ہیں بعد کو پیدا کرلی گئیں، اصل دین میں نہ تھیں جو تمہارے بزرگ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین تھا۔ اسی دین خالص کی راہ تم پر کھول دی گئی۔ (و) اس نے تمہارا نام مسلم رکھا۔ کیونکہ دین خالص اول دن سے اسلام ہی ہے۔ یعنی قوانین حق کی اطاعت، ہی نام پہلے تھا۔ یہی اب ہوا۔ (ز) تمہیں اس لیے چنا گیا کہ اللہ کا رسول تمہارے لیے شاہد ہو، تم تمام انسانوں کے لیے اپنا چراغ اس سے روشن کرو گے، تمہارے چراغ سے تمام دنیا کے چراغ روشن ہوجائیں گے۔ یک چراغ ست دریں خانہ کہ از پر تو آں۔۔۔۔ ہر کجا می نگری، انجمنے سختہ اند (ح) یہ فرض کیونکر انجام پاسکتا ہے؟ اس طرح کہ نماز قائم کرو، زکوۃ کا انظام استوار کرو، اللہ کا سہارا مضبوط پکڑ لو۔ (ھو مولاکم فنعم المولی ونعم النصیر) یہاں سے دو باتیں قطعی طور پر معلوم ہوگئیں۔ ایک یہ کہ دین کی سچائی کی سب سے بڑٰی کسوٹی یہ ہے کہ اس میں تنگ و رکاوٹ نہ ہو۔ دوسری یہ کہ مسلمانوں کے لیے دینی نام صرف مسلمان ہی ہے۔ اس کے سووا جو نام بھی اختیار کیا جائے گا وہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے نام کی نفی ہوگا۔ پس مسلمانوں کے مختلف فرقوں، مذہبوں اور طریقوں نے جو طرح طرح کے خود ساختہ نام گھڑ لیے ہیں اور اب انہی سے اپنے پہنچوانا چاہتے ہیں، وہ صریح سماکم المسلمین سے انحراف ہے۔ بعث بعد الموت اور قرآن کا استدلال : سورت کی ضروری تشریحات ختم ہوگئیں لیکن بعض مقامات کی اہمیت مزید تفصیل کی طالب ہے خصوصا سورت کا ابتدائی حصہ جس میں بعث بعد الموت کا اثبات ہے۔ اس میں پہلے دلائل بیان کیے ہیں ِ پھر ان کی نتائج نکالے ہیں۔ یہ نتائج حسب ذیل ہیں ِ آیت (٦) پر غور کرو۔ (ا) (ذلک بان اللہ ھو الحق) اللہ کی ہستی ایک حقیقت ہے۔ (ب) (وانہ یحیی الموتی) وہ مردوں کو زندہ کردیتا ہے۔ (ج) وانہ علی کل شیء قدیر) اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔ (د) (وان الساعۃ ایتۃ لا ریب فیھا) ایک مقررہ گھڑٰ آنے والی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں۔ (ہ) (وان اللہ یبعث من فی القبور) جو مرگئے ہیں اللہ انہیں اٹھا کھڑا کرے گا۔ یہ پانچ باتیں ہیں جن پر اس مقام کی موعظت نے روشنی ڈالی ہے۔ یہ شک کو دور کرتی اور اذعان و یقین کی طمانیت پیدا کردیتی ہے۔ جو موعظت ایسی ہو اسے قرآن اپنی اصطلاح میں دلیل، برہان اور حجۃ سے تعبیر کرتا ہے، نہ کہ دلیل مصطلحہ، منطق و فنون جدلیہ، اب غور کرو، ان پانچوں باتوں کے لیے یہاں دلیل کی روشنی کس طرح نمایاں ہوئی ہے؟ فرمایا : (ان کنتم فی ریب من البعث) اگر تم شک میں پڑے ہو کہ مرنے کے بعد پھر دوبارہ اٹھنا کیسے ہوسکتا ہے تو اس بات پر غور کرو جو بیان کی جاتی ہے۔ تمہارا سارا شک اور ستغراب دور ہوجائے گا۔ تخلیق حیات اور اعادہ حیات : (فانا خلقنا کم من تراب) تمہیں یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ انسان مر کر پھر اٹھ کھڑا ہو۔ یعنی زندگی کا دوسرا اٹھان تمہیں عجیب معلوم ہوتا ہے لیکن اگر یہ بات عجیب ہے تو کیا اس سے زیادہ یہ بات عجیب نہیں کہ زندگی کا پہلا اٹھان ظہور میں آگیا؟ تم اپنی ہسیت میں تو شک نہیں کرسکتے؟ اچھا یہ ہستی کس طرح ظہور میں آئی؟ دوسری مرتبہ اگر انسانی ہستی اٹھے گی تو یہ زندگی کی ابتدا نہیں ہوگی۔ زندگی کا اعادہ ہوگا، لیکن اس کی ابتدا کیونکر ہوئی؟ من تراب مٹی سے، یعنی (من صلصال من حما مسنون) مٹی کا گارا جس میں مدتوں خمیر اٹھتا رہا اور پھر سوکھ کر کھنکھانے لگا۔ سب سے پہلے زندگی کا جرثومہ اسی میں نمودار ہوا تھا۔ پھر حکمت الہی نے اسے درجہ تکمیل تک پہنچایا۔ سوال یہ ہے کہ اگر زندگی عدم حقیقی سے وجود میں آسکتی تھی تو کیا ایک مرتبہ وجود میں آکر پھر دہرائی نہیں جاسکتی؟ زیادہ عجیب بات کون سی ہے؟ کسی چیز کی ابتدائی پیدائش، یا پیدائش کے بعد اعادہ؟ اگر تمہارے لیے ابتدائی پیدائش میں کوئی اچنبھا نہیں تو اعادہ میں کیوں ہو؟ کیوں تم قطعی فیصلہ کردو کہ ایسا نہیں ہوسکتا؟ جس قدرت پر یہ دشوار نہ ہو کہ زندگی پید کردے اس پر یہ کیوں دشوار ہونے لگا کہ پیدا شدہ زندگی کو کہ بکھر گئی ہے، پھر سمیٹ دے؟ اگر کمہار نئی مٹی سے نیا برتن بنا سکتا ہے تو ٹوٹے ہوئے برتن کے ٹکڑوں کو بھی دوبارہ ڈھال لے سکتا ہے۔ پیدائش کا تناسلی سلسلہ اور قانون تحول : اچھا یہ تو ابتدائی پیدائش ہوئی، اس کے بعد پیدائش کا جو سلسلہ قائم ہوا اس کا کیا حال ہے؟ اس کا حال یہ ہے کہ دو حقیقتیں ہر وقت تمہارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسانی وجود کا پورا درخت صرف ایک بیج سے پید اہوجاتا ہے جس کا نام نطفہ ہے۔ لیکن نطفہ کیا ہے ؟ کیا گوشت پوست ہے؟ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے؟ ڈیل ڈول ہے؟ شکل و صورت ہے؟ عقل و حواس ہے؟ نہیں کچھ بھی نہیں ہے اور پھر سب کچھ ہے۔ ایک قطرہ حقیر مگر اسی سے انسان کا جسم، اس کی قامت، اس کی صورت، اس کی ساری معنوی قوتیں ظہور میں آجاتی ہیں َ دوسری بات یہ کہ یہاں یکسر تغیر و تحول کا قانو جاری ہے۔ شکم مادر میں جنین کو دیکھو، کتنی مختلف حالتوں سے گزرتا ہے؟ نطفہ سے عقلہ، علقہ سے مضغہ، مضغہ سے عظم و لحم، عظم و لحم سے تشکل و صورت۔ پھر پیدائش کے بعد بچے کو دیکھو۔ کس طرح یکے بعد دیگرے نشو و بلوغ کے درجے بدلتا رہتا ہے؟ جو ان آدمی کو دیکھو۔ کس طرح جسم و عقل کے کمال تک پہنچتا اور پھر زوال کی طرف پلٹتا ہے؟ گویا انسان کی ہستی سراسر تبدل ہے۔ تطور ہے، تحول ہے، ایک حالت سے بدل کر دوسری حالت میں داخل ہوتے رہنا ہے۔ عالم نباتات اور اعادہ تحول : یہی حال عالم نباتات کا ہے۔ زمین کی گوود میں بھی زندگیاں اور پیدائشیں ہیں۔ جس طرح یہاں نطفہ ہے وہاں بھی تخم اور تخم کے ذرات ہیں، تم دیکھتے ہو کہ اس کی گود زندگیوں کی نمود سے بالکل خالی ہوگئی۔ پھر دیکھتے ہو کہ زندگیوں کی فراوانی سے شاداب ہوگئی۔ یہ انقلاب کس طرح ظہور میں ٓٓیا۔ اسی طرح کہ محض ایک تخم سے، تخم کے ایک ذرہ سے، حیات نباتی کی ایک جوہری تلفیح سے پورا وجود نباتی پیدا ہوگیا اور تبدل و تحول کی تمام حالتیں اس پر بھی اسای طرح گزریں جس طرح تمہاری ہستی پر گزرتی رہتی ہیں۔ قانون تاجیل : ساتھ ہی غور کرو۔ یہاں ایک تیسرا قانون بھی کام کر رہا ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ ہر تبدیل کے لیے ایک اجل مسمی۔ یعنی ایک مقررہ وقت ہے جو نہی وہ وقت آیا احیا و اجسام ظہور میں آگئے۔ نطفہ کو دیکھو (نقر فی الارحام ما نشاء الی اجل مسمی) وہ اندرونی طور پر بنتا رہتا ہے مگر ایک مقررہ وقت تک ارحام کے اندر چھپا رہتا ہے۔ اجسام نباتیہ کو دیکھو، ان کی زندگی کا جوہر موجود ہوتا ہے، مگر ابھرتا نہیں، ابھرتا کب ہے؟ (اذا انزلنا علیھا الماء) جب بارش کی گھڑی آتی ہے اور زندگی کے بروز و نمود کا اعلان کردیتی ہے۔ اس وقت (اھتزت وربت وانبتت من کل زوج بھیج) کا عالم نمایاں ہوجاتا ہے۔ تخم حیات اور اعادہ نشاۃ: یہ انسان و حیوان کی کامل ہستی جو محض نطفہ سے ظہور میں آتی ہے کیوں ظہور میں آتی ہے؟ اس لیے کہ اس میں جوہر حیات بالقوۃ موجود ہے اور پھر وہ بالفعل نمود کرتا ہے۔ اچھا اگر تمہاری روزانہ زندگی کا یہ معاملہ تمہارے لیے عجیب نہیں تو یہ بات کیوں عجیب ہوجائے کہ اسی طرح کوئی نطفہ حیات ہے جو مرنے کے بعد بھی موجود رہتا ہے، اور اس سے دوبارہ وجود انسانی ظہور میں آجائے گا؟ تم کہو گے اس کی کوئی مثال نہیں لیکن تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو جبکہ اس کی مثال ہمیشہ تمہاری نگاہوں سے گزرتی رہتی ہے؟ (وتری الارض ھامدۃ) تم زمین کو دیکھتے ہو، وہی زمی جو کچھ عرصہ پہلے شاداب تھی، یک قلم سوکھ گئی ہے، پھر جب اس کی بندگی کی اجل مسمی آجاتی ہے یعنی پانی برسنے لگتا ہے تو اچانک مری ہوئی شادابی دوبارہ زندہ ہوجاتی ہے اور ہر تخم نباتی اٹھ کھڑا ہوجاتا ہے، جس طرح نباتات کے اعادہ نشاۃ کا یہ منظر ہمیشہ دیکھتے رہتے ہو تو ٹحیک اسی طرح انسانی زندگی کے اعادہ نشاۃ کا معاملہ بھی سمجھو۔ بارش نے نئی زندگی پیدا نہیں کردی، اسی پیدا شدہ زندگی کو دہرا دے گی جو کائنات کی آغوش میں موجود ہے۔ اب تم کہو گے، اگر موجود ہے تو وہ دکھائی کیوں نہیں دیتی؟ لیک تمہیں کون سی چیز دکھائی دیتی ہے ؟ تمہیں نطفہ میں انسان اور تخم میں درخت دکھائی دیتا ہے؟ تم کہو گے مگر نطفہ اور تخم تو دکھائی دیتا ہے اور زندگی کے جو جراثیم آنکھوں سے نہیں دیکھے جاسکتے، آلات کے ذڑیعہ سے دیکھ لیے جاسکتے ہیں َ ہاں دیکھ لیے جاسکتے ہیں مگر اس لیے کہ زیادہ دقیق نہیں، جو دقیقی نہیں تھے وہ تمہیں صاف نظر آتے رہے، جو دقیقی تھے وہ ہزاروں برس تک نظر نہیں آئے۔ یہاں تک کہ تم نے طاقتور فرد بینیں ایجاد کیں، پس تم کیسے حکم لگا دے سکتے ہو کہ ان سے بھی دقیق ترتخم ہائے حیات موجود نہیں؟ اگر تمہیں صرف اتنی سی بات کے لیے دس ہزار برس تک انتظار کرنا پڑا کہ نطفہ حیوانی کے جراثیم دیکھ لو۔ تو تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ ان سے بھی دقیق ترتخم ہائے حیات کے لیے تمہیں چند ہزار برس اور مطلوب نہیں؟ اور ان کا مرئی نہ ہونا اکی معدومیت کا قطعی ثبوت ہے؟ تفصیل استدلال : اب دیکھو، مندرجہ صدر موعظت سے ان پانچوں باتوں پر کس طرح اذعان و یقین کی روشنی پڑ رہی ہے۔ (ا) (ان اللہ ھو الحق) کیونکہ یہ سب کچھ بغیر اس کے نہیں ہوسکتا کہ خالقیت اور قدرت کی ایک حقیقت کام کر رہی ہو، تم وجدانی طور پر ایسا اعتقاد رکھنے پر مجبور ہو۔ (ب) (انہ یحی الموتی) کیونکہ زندگی نہ تھی، اس نے پیدا کی اور پھر برابر اسے دہرا رہتا ہے۔ (ج) (انہ علی کل شی قدیر) کیونکہ جس کی قدرت نے ایک ایسے مواد سے جو مٹی اور پانی کی ملی جلی کیچڑ تھی زندگی کا شعلہ روشن کیا اور اس کا ایسا نظام قائم کردیا کہ نطفہ کے ایک قطرہ اور تخم کے ایک ذرہ سے پیدائش نکلتی اور زندگیاں بنتی رہتی ہیں اس کی قدرت سے کون سی بات بعید ہوسکتی ہے ؟ (د) (ان الساعۃ اتیۃ لا ریب فیھا) ایک مقررہ گھڑی قیامت کی ضرور آنے والی ہے۔ کیونکہ یہاں تبدیلی کا قانون نافذ ہے اور ہر تبدیلی کے لیے ایک اجل مسمی مقرر ہے۔ پس جس طرح بارش کی مقررہ گھڑی تمام اجسام نباتیہ کو موت کی حالت سے زندگی کی حالت میں لے آتی ہے ضروری ہے کہ نوع انسانی کے لیے بھی ایک ایسی ہی اجل مسمی ہو۔ (ہ) (وان اللہ یبعث من فی القبور) اور جب وہ گھڑی آئے تو تمام اموات لہلہاتی ہوئی کونپلوں کی طرح اٹھ کھڑی ہوں۔ قرآن کی اس موعظت کو ٹھیک طور پر سمجھ لینے کے لیے ضروری ہے کہ چند مقامات واضح ہوجائیں۔ قرآن کی اصطلاح میں بعثت : اولا قرآن نے جابجا حیات بعد الموت کو بعث سے تعبیر کیا ہے۔ بعث کے معنی اٹھ کھڑے ہونے کے ہیں۔ گویا اس کے نزدیک یہ معامالہ ایسا ہوگا جیسے کوئی سورہا تھا، پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ اسے خلقت کے اعادہ سے بھی تعبیر کرتا ہے۔ (کما بدانا اول خلق نعیدہ) موت اور احیات : ثانیا موت اور حیات کا اطلاق وہ صرف انہی حالتوں پر نہیں کرتا جو فلسفیانہ اصطلاح کی معدومیت اور تخلیق ہیں بلکہ ہر ایسی حالت پر کرتا ہے جس میں زندگی کی نمود مفقود ہوجائے یا بالفاظ دیگر صورت معدوم ہوجائے اور پھر نمایاں اور متشکل ہوجائے۔ اس باب میں اس کا اطلاق اس درجہ وسیع ہے کہ نیند کی حالت پر بھی اس نے موت کا اطلاق کیا ہے اور دراصل یہ خود عربی زبان کا لغوی اطلاق ہے، بعد کو موت اور حیات نے جو فلسفیانہ معانی پہن لیے وہ قرآن کی زبان نہیں ہے۔ انسان کا عام مشاہدہ اور اعتقاد بھی یہی ہے، نطفہ کو ہم زندہ نہیں کہتے۔ حالانکہ اس میں زندگی کا جرثومہ موجود ہے، آم کی گٹھلی اور پتھر کے ایک ٹکڑے میں ہم کوئی فرق نہیں کرتے، دونوں ہماری زبان، ہمارے اعتقاد اور ہمارے مشاہدہ میں بے جان ہیں، حالانکہ علمی اصطلاح میں گٹھلی بے جان نہیں، اس میں نباتاتی زندگی کا تخم موجود ہے۔ پس قرآن کے اختیارات لغویہ کو کہ لغت کے اعتبار سے ہیں، علمی مصطلحات پر ڈھالنا نہیں چاہیے۔ اس کی زبان میں موت عام ہے، خواہ انعدام محض ہو، خواہ انعدام صورت ہو، اسی طرح حیات بھی عام ہے، خواہ معدومیت محضہ سے تخلیق ہو، خواہ کسی جوہر حیات سے بروز وانبعاث ہو۔ چنانچہ جس طرح وہ اس ابتدائی حالت کو موت سے تعبیر کرتا ہے جو عدم محض کی حالت تھی، اسی طرح نطفہ کی اور تخم ائے نباتات کی حالت کو بھی موت سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے۔ پہلے زندگی مٹی سے ہوئی جبکہ حیات حیوانی میں سے کچھ نہ تھا۔ پھر نطفہ سے ہوتی ہے، جبکہ نطفہ کا جوہر حیات موجود ہوتا ہے۔ انبعاث تخلیق نہیں ہے اعادہ و تبدل حیات ہے : ثالثا اس نے حشر اجساد کے معاملہ کو بھی اسی حالت سے تشبیہ دی ہے جو نطفہ سے زندگی کے ابھرنے اور تخم سے درختوں کے نکلنے کی حالت ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا انسان کی دوسری زندگی کا ظہور اس طرح کا ظہور نہ ہوگا جیسا ابتدائی تخلیق کا ظہور تھا۔ یعنی بغیر کسی اصل حیات کے حیات ظہور میں آگئی تھی۔ بلکہ ایسا ہوگا، جیسا نطفہ سے ایک نئی پیدائش اور بزور نباتات سے اییک نیا انبعاث ظہور میں آجاتا ہے۔ یعنی اصل حیات بالقوہ موجود ہوتی ہے اور بالفعل ظہور میں آجاتی ہے، اسی لیے وہ اسے بعث سے تعبیر کرتا ہے، جیسے کوئی آدمی دیر تک سوتا رہا تھا، پھر اٹھ کھڑا ہوا، اور یہی وجہ ہے کہ اس نے اس ان بعاث کے احساسات و اردرات ایسے بیان کیے ہیں جیسے نیند کے بعد بیدار ہونے پر طاری ہوا کرتے ہیں۔ مثلا جابجا کہا ہے، اس وقت لوگ سوچیں گے، ہم کتنے عرسہ تک بے خبر رہے؟ کوئی کہے گا تھوڑی دیر، کوئی کہے گا زیادہ عرصہ تک، اور پھر یہی وجہ ہے کہ وہ اس حالت کو اعادہ حیات سے تعبیر کرتا ہے، اور عالم ہستی کے تبدل و تحول سے استدلال کرتا ہے۔ یعنی جب فطرت کائنات کے ہر گوشہ میں تبدل حالت کا قانون کام کررہا ہے اور یہاں ہر قدم پر تبدل اور ہر منزل پر تجدد ہے تو کیوں تمہیں اس سے انکار ہو کہ ایک اور تبدل بھی پیش آنے والا ہے اور اس کا نام بعث و حشر ہے؟ انسان اپنی ہستی کی جس منزل تک پہنچ چکا ہے وہاں سے گردن موڑ کر پیچھے کی طرف دیکھے، کتنے بے شمار تبدلات ہیں جن سے اس کی ہستی گزرتی رہی ہے؟ پھر اگر ماضی میں بے شمار تبدلات ہوچکی ہیں تو کیوں مستقبل میں بھی نہ ہوں؟ کیوں تبدلات کا سفر اسی منزل تک پہنچ کر رک جائے؟ کیوں اس پر تعجب ہو کہ جہاں ایک ہزار تبدیلیاں ہوچکی ہیں وہاں ایک آخری تبدیلی اور بھی ہونے والی ہے؟ ہم نے اضافی حیثیت سے یہاں آخری کہہ دیا، ورنہ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ تبدل بھی آخری ہوگا؟ (وما اوتیتم من العلم الا قلیلا) یہاں وجود کی حقیقت نہیں مٹتی صورت مٹتی ہے : رابعا ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں جو چیز بھی اپنا وجود پالیتی ہے پھر اس کی حقیقت معدوم نہیں ہوتی، صرف صورت معدوم ہوجاتی ہے، اور اسی صورت کا انعدام ہمارے لیے اس کا معدوم ہوجانا ہوتا ہے۔ تم درخت کو چیر کر تختہ بنا لیتے ہو۔ اب درخت معدوم ہوگیا تختہ پیدا ہوگیا، مگر جو چیز معدوم ہوگئی وہ کیا تھی؟ صورت یا حقیقت؟ محض صورت جو پیدا ہوگئی، وہ کیا پیدا ہوئی؟ نئی حقیقت یا نئی صورت؟ نئی صورت، کیونکہ درخت پر جو تبدیلی طاری ہوئی وہ صرف صورت کی ہوئی۔ حقیقت تختے کی بھی وہی ہے جو درخت کی تھی۔ اب تختہ جلا دو، تختہ نابود ہوگیا، راکھ پیدا ہوگئی، راکھ بھی اڑ دو، راکھ نابود ہوگئی، منتشر ذرات پیدا ہوگئے۔ مگر ان دونوں حالتوں میں بھی جو انعدام ہوا، وہ کس چیز کا ہوا؟ محض صورت کا، اگر تم منتشر ذروں کا بھی تعاقب کرسکتے ہو تو کر دیکھو، صورت بدلتی جائے گی، حقیقت کبھی معدوم نہیں ہوگی کیونکہ یہاں ہر گوشہ میں تبدل صرف صورت کے لیے ہے، حقیقت کے لیے نہیں ہے۔ لیکن صورت کے اس تبدل کا سلسلہ کس نقطہ پر جاکر ختم ہوتا ہے؟ اس کا کھوج ہم آج تک نہ پاسکے۔ ہماری جستجو کا قافلہ ہمیشہ کی طرح اب بھی رواں ہے، ہم نے عرصہ تک عناصر کا خواب دیکھا، ہم مدتوں جز ولا تیجزی کی سراغ رسانی میں رہے، ہم نے ذی مقراطیسی سالمات پر صدیوں تک اعتماد کیا۔ اب ہم الیکڑون کی مثبت اور منفی لہروں میں اسے دیکھ رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ آگے بڑھیں گے یا یہیں رکے رہیں گے۔ البتہ اس آخری منزل نے حقیقت کا ایک نیا جلوہ آشکارا کردیا ہے، یعنی یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مادہ کا آخری بقایا محض ایک جامد ذرہ ہی نہیں ہے بلکہ حرکت و خواص حرکت کی ایک مشتعل قوت ہے اور نہیں معلوم اس نقطہ قوت میں فعل و انفعال کی کتنی دنیائیں پوشیدہ ہیں۔ تبدل صورت اور بقائے حقیقت سے استدلال : قرآن کہتا ہے جب تم دیکھ رہے ہو کہ یہاں تبدل صورت اور بقائے حقیقت کا قانون ہر گوشہ میں کام کر رہا ہے، تو پھر تم نے کیسے سمجھ لیا کہ ایک انسانی ہستی وجود میں آکر پھر مطلقا نابود ہوجاتی ہے اور اس کی کوئی حقیقت جوہری باقی نہیں رہتی؟ فطرت کا جو قانون وجود ہستی کے ہر گوشہ میں نافذ ہے وہ زندگی اور روح کے لیے کیوں معطل ہوجائے؟ وہ انسان کی زندگی کے لیے کیوں معطل ہوجائے جو کرہ ارضی کی تمام مخلوقات کا ماحصل اور سلسلہ تخلیق کا منتہا اور مقصود ہے؟ نہیں یہاں کوئی ہستی بھی جو وجود میں آجائے، نابود محض نہیں ہوسکتی۔ بلاسبہ اس کی صورت مٹ جاتی ہے مگر حقیقت نہیں مٹے گی۔ اس کی صورت پر ہزار تبدیلیاں طاری ہوجائیں مگر بالآخر کوئی نہ کوئی حقیقت جوہری ضرور باقی رہے گی۔ وہ ایک دانہ تخم کی طرح ہو، ایک نطفہ پیدائش کی طرح ہو، ایک ذرہ حیات کی طرح ہو، مگر ممکن نہیں کہ موجود نہ ہو۔ وہ کسی نہ کسی حالت میں ضرور موجود رہتی ہے اور پھر جونہی بعث و اعادہ کی گھڑی آئے گی اور زندگی کا صور پھونکا جائے گا، ہر انسانی زندگی اس سے نمودار ہو کر اٹھ کھڑی ہوگی۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح نطفہ پیدائش سے شکم مادر میں اور تخم نباتی سے آغوش ارضی میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ یہاں کوئی ہستی جو پیدا ہوجائے، پھر نابود نہیں ہوجاتی۔ وہ کسی مخفی نشیمن میں سوئی رہتی ہے۔ اب اسے دوبارہ خلق کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صرف اٹھا دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نباتات کی ہستی ذرات تخم کے نشیمنوں میں سوئی رہتی ہے جب نمود بروز کا موسم آتا ہے تو وہ نئی ہستیاں پیدا نہیں کردیتا، سوئی ہوئی ہستیوں کو بیدار کردیتا ہے، اسی طرح انسان کی ہستی بھی کسی نہ کسی ذرہ تخم میں بند ہو کر سو رہتی ہے۔ اور جب وقت آئے گا تو اٹھ کھڑٰ وہگی۔ تم اسے دیکھتے نہیں، لیکن تم اور کتنی حقیقتوں کو دیکھ رہے ہو؟ تمہیں اس کا پتہ نہیں۔ لیکن تم نے اور کتنی حقیقتوں کا پتہ لگا لیا ہے؟ تمہارے عدم ادراک سے حقیقت معدوم نہیں ہوسکتی، تم اگر اعتقاد وجود کے لیے مشاہدہ وجود کو شرط سمجھ لو گے تو تمہیں آدھی دنیا سے انکار کردینا پڑے گاْ تم نے اگر ایسا سمجھ لیا ہوتا تو آج حقائق مادیہ کی دو تہائی حقیقتیں غیر معلوم ہوتیں، تم عرفان حقیقت کی راہ میں صرف حواس کے سہارے چل نہیں سکتے۔ تمہیں ادارک عقلی کا سہارا پکڑنا پڑتا ہے، اور پھر جب یہ سہارا بھی جواب دے دیتا ہے تو تم رک جاتے ہو اور انتظار کرتے ہو، تمہیں اس گوشہ میں بھی مان لینا چاہیے اور انتظار کرنا چاہیے۔ مواسم ہستی کی گردش اور تقویم فطرت : خامسا قرآن نے بعث و حشر کے معاملہ کا جس طرح ذکر کیا ہے اور عالم نباتات کے اعادہ حیات کی مقررہ گھڑی سے جس طرح اسے تشبیہ دی ہے اس سے ایسا متبادر ہوتا ہے کہ تبدل کائنات کے معاملہ کو بھی موسموں کی تبدیلیوں کا سا معاملہ تصور کرنا چاہیے۔ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں، خزاں و بہار، خشک سالی سیرابی، گرمی و سردی، کے مختلف موسم آتے رہتے ہیں۔ اسی طرح تبدل کائنات کا بھی ایک موسم ہے اور ہمارے سال کی طرح اس کا بھی کوئی سال اور ہماری روز شماریوں کی طرح اس کی بھی کوئی روز شماری ہے،۔ لیکن ہم اپنی تقویم پر جو کائنات کے صرف ایک حقیر کرہ کی سیر و گردش کا نتیجہ ہے اس کی تقویم کو قیاس نہیں کرسکتے۔ اس کی مدت کوئی بڑی ہی طولانی مدت ہے، اتنی طولانی کہ ہماری وقت شماری کا پچاس ہزار سال اور اس کا صرف ایک دن۔ چنانچہ آگے چل کر سورۃ معارج میں پڑھو گے : (تعرج الملائکۃ والروح الیہ فی یوم کان کان مقدارہ خمسین الف سنۃ) ہمارے سال کے موسموں کی طرح کا بھی ایک موسم ختم ہوتا ہے اور دوسرا موسم شروع ہوتا ہے۔ یہاں جب حیات ارضی کا موسم آتا ہے تو اس کی محرک اول بارش ہوتی ہے، بارش گرتی ہے اور اموات نباتات کو زندگی کا حکم مل جاتا ہے۔ (اھتزت وربت وانبتت من کل زوج بھیج) ٹھیک اسی طرح جب سال کائنات کا وہ مقررہ موسم آئے گا تو بارش ہی کی طرح زندگی کا کوئی صورت پھونک دیا جائے گا : (فاذا نفخ فی الصور نفخۃ واحدۃ) اور بہ مجرم حکم، تمام اموات انسانی اٹھ کھڑی ہوں گی : (یخرجون من الاجداث کانھم جراد منتشر۔ مھطعین الی الداع) علم اس مقام میں نہیں کہ جرات انکار کرے : آخر میں ایک اصل عظیم نہیں بھولنی چاہیے۔ جہاں تک مسئلہ حیات کی حقیقت کا تعلم ہے علم انسانی کے سامنے کوئی یقینی روشنی موجود نہیں۔ ہم اس وقت تک یہ بھی نہ جان سکے کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟ ارنست ہیگل (Ernst Haeckel) کے لفظوں میں ہم زیادہ سے زیادہ جو کرسکے ہیں وہ صرف یہی ہے کہ اس کے آنے کا انتظار کریں اور جب آجائے تو اس کے اطوار و احوال اور خواص و افعال کے تعاقب میں نکل جائیں، لیکن وہ کیا ہے ؟ وہ آتی کہاں سے ہے؟ وہ جاتی کہاں ہے ؟ تو اس بارے میں علم انسانی کا قدم اس جگہ سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکا جہاں ہزاروں برس سے متحیر و درماندہ کھڑا ہے۔ جب حقیقت حیات کے بارے میں ہماری عقلی معلومات کا یہ حال ہے تو کیا ہمیں ایسا مقام حاصل ہے کہ وحی الہی کے اعلانات علم و یقین کے مقابلہ میں نفی و انکار کی جرات کریں؟ اگر کریں گے تو یہ ویسی ہی جرات ہوگی جسے اسی صورت میں جدال فی اللہ بغیر علم سے تعبیر کیا ہے : (ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم ولا ھدی ولا کتاب منیر) دلائل بعثت کے بیان کے بعد فرمایا : (ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم ولا ھدی ولا کتاب منیر) اور کتنے ہی آدمی جو اللہ کے بارے میں جھگڑنے لگتے ہیں اور ان کی حالت کیا ہوتی ہے ؟ یہ کہ نہ تو علم کی روشنی رکھتے ہیں نہ کوئی رہنمائی کی راہ اور نہ کوئی کتاب روشن، اور عرفان حق کے یہی تین وسائل ہیں جو انسان کو حاسل ہوسکتے ہیں، پس ایسے لوگوں کے لیے سچائی کی کوئی دلیل بھی سود مند نہیں، وہ دلائل بعث کی یہ تمام موعظت سن کر بھی سر ہلا دیں گے کہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ آیت مہمات معارف قرآنی میں سے ہے کیونکہ اس نے جدال فی اللہ بغیر علم کی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہی حالت قرآن کے نزدیک جہل و ضلالت انسانی کا سب سے بڑا مبدء ہے۔ لیکن چونکہ یہ مقام زیادہ تفصیل کے ساتھ آئندہ سورتوں میں آنے والا ہے اس لیے یہاں اس کی تشریح میں جانا ضروری نہیں۔