الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
جنہیں ہم جب سرزمین کا حاکم بناتے ہیں تو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور تمام امور کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔
آیت (٤١) نے واضح کردیا کہ قرآن کے نزدیک مسلمانوں کے اقتدار و حکومت کا اصلی مقصد کیا تھا؟ فرمایا ان مظلوم مسلمانوں کے اگر قدم جم گئے تو کیا کریں گے؟ یعنی تمکن فی الارض کو کن مقاصد کے لیے کام میں لائیں گے؟ اس لیے کہ نماز قائم کریں، زکوۃ ادا کریں، نیکی کا حکم دیں، برائیوں سے روکیں اور ظلم وبدعملی کی جگہ عدالت و نیکی کی مملکت قائم ہوجائے۔ اس کے بعد فرمایا : یہ انقلاب اسی سلسلہ انقلاب کی ایک کڑی ہے جو دنیا میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے پس اگر منکرین حق اسے جھٹلائیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، پہلے بھی ہمیشہ ظلم و غرور کے متوالوں نے حق و صداقت کی آوازیں جھٹلائی ہیں، اگر ان کے دل اندھے نہ ہوگئے ہوتے تو یہ پچھلوں کی سرگزشتوں سے عبرت پکڑتے مگر انسان کے ظلم و غرور کی طبیعت ہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ دوسروں کی حالت سے کبھی عبرت نہیں پکڑتا۔ یہاں تک کہ خود اس پر بھی وہ سب کچھ گزر جائے جو دوسروں پر گزر چکا ہے۔ اس بات پر غور کرو کہ یہاں اسلامی اعمال میں سے اور کسی عمل کا ذکر نہیں کیا۔ صرف قیام صلوۃ اور ایتائے زکوۃ کا ذکر کیا، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک مسلمانوں کے جماعتی اقتدار کی اسلی علامت یہی دو عمل ہیں۔ جس گروہ کا اقتدار ان دو عملوں کے قیام سے خالی ہو اس کا اقتدار اسلامی اقتدار نہیں سمجھا جاسکتا۔