وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کی جگہ (١٥) مقرر کردی، اور ان سے کہا کہ آپ کسی چیز کو بھی میرا شریک نہ ٹھہرائے، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے شرک و بت پرستی سے پاک رکھیے۔
اس کے بعد آیت (٢٦) سے (٢٩) تک سے واضح کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے اس عبادت گاہ کی بنیاد رکھی تو کیا مقاصد ان کے پیش نظر تھے اور وحی الہی نے کس راہ کی تلقین کی تھی؟ اور پھر حج کا اعلان کیا گیا تو اس کے بنیادی اعمال و مقاصد کیا کیا تھے؟ اور کس طرح وحی الہی نے اس کی رہنمائی کی تھی؟ خلاصہ ان کا یہ ہے کہ : (ا) توحید کا اعتقاد (ب) عبادت گزاران حق کے لیے معبد کی تطہیر (ج) حج کا اجتماع تاکہ اس کے گوناگوں منافع سے لوگ مستفید ہوں اور معین ایام میں ذکر الہی کا ولولہ تازہ ہوتا رہے۔ (د) جو لوگ اس موقع پر جمع ہوں جانوروں کی قربانیاں کریں اور محتاجوں کے لیے غذا کا اہتمام ہو۔ پس جس مرکز عبادت کا قیام اول دن سے ان مبادی و مقاصد کے لیے ہوا ہے کیونکر جائز ہوسکتا ہے کہ قریش مکہ اس کے مالک بن بیٹھیں اور جنہیں چاہیں وہاں آنے دیں، جنہیں چاہیں روک دیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیت (٢٦) سے (٣٧) تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے یہ سب ان احکام کی حکایت ہے جو حضرت ابراہیم کو دیے گئے تھے لیکن عام طور پر مفسروں نے آخری حصہ کو براہ راست خطاب قرار دیا ہے۔ بہرحال دونوں صورتوں میں یہ تمام تفصیلات اسی بات کی شرح ہیں کہ (جعلناہ للناس سواء العاکف فیہ والباد) یعنی یہ عبادت گاہ صرف باشندگان مکہ ہی کے لیے نہیں بنائی گئی ہے بلکہ بلا امتیاز سب کے لئیے، خواہ مکہ کے رہنے ولے ہوں یا دوسری جگہوں کے۔ چنانچہ اسی لیے حج اور قربانی کا حکم دیا گیا، لوگ دور دور سے یہاں آنے لگے اور قربانی کے جانور لانے لگے۔ خصوصا قربانی کے اونٹ جو صحرا اور جبال طے کر کے حرم مکہ میں پہنچائے جاتے اور لوگ انہیں اس معبد کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی تصور کرتے، اب اگر قریش مکہ کا یہ اختیار تسلیم کرلیا جائے کہ جسے چاہیں آنے دیں، جسے چاہیں روک دیں تو پھر نہ کعبہ کعبہ رہا، نہ حج حج۔ ضمنا یہ بات بھی واضح کردی کہ قربانی کی حقیقت کیا ہے ؟ آیت (٢٨) اور (٣٦) میں فرمایا تھا کہ اس کا گوشت خود بھی کھاؤ اور محتاجوں کو بھی کھلاؤ، یعنی مقصود اس سے جانوروں کا خون بہانا نہیں ہے جیسا کہ لوگ سمجھتے تھے بلکہ یہ ہے کہ لوگوں کے لیے غذا کا سامان ہو۔ پھر آیت (٣٧) میں صاف صاف کہہ دیا کہ اصل عبادت تمہارے دلوں کا تقوی ہے۔ نہ کہ قربانی کا گوشت اور خون۔ بت پرست اقوام میں قربانی کی رسم اس طرح چلی تھی کہ انہوں نے خیال کیا انسانوں کی طرح دیوتاؤں کو بھی چڑھاووں کی ضروت ہے اور جانوروں کا خون بہانا ان کا غضب و قہر ٹھنڈا کردیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے نہ تو خدا تک گوشت کا چڑھاوا پہنچ سکتا ہے نہ وہ خون بہانے کا شائق ہے، اصل شے جو اس کے حضور مقبول ہوسکتی ہے، دل کی نیکی اور طہارت ہے۔