سورة البقرة - آیت 256

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

دین میں داخل ہونے کے لیے کسی کو مجبور (356) نہ کیا جائے، ہدایت گرماہی سے الگ اور نمایاں ہوچکی ہے، پس جو کوئی طاغوت کا انکار کردے گا، اور اللہ پر ایمان لے آئے گا، اس نے درحقیقت ایک ایسے مضبوط کڑے کو پوری قوت کے ساتھ تھام لیا، جو کبھی نہیں ٹوٹے گا، اور اللہ بڑا ہی سننے والا اور جاننے والا ہے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اس اصل عظیم کا اعلان کہ دین و اعتقاد کے معاملہ میں کسی طرح کا جبر و استکراہ جائز نہیں :۔ دین کی راہ دل کے اعتقاد و یقین کی راہ ہے اور اعتقاد، دعوت و موعظت سے پیدا ہوسکتا ہے نہ کہ جبر و استکراہ سے : 1۔ احکام جہاد کے بعد ہی یہ ذکر اس لیے کیا گیا تاکہ واضح ہوجائے کہ جنگ کی اجازت ظلم و تشدد کے انسداد کے لیے دی گئی ہے۔ نہ کہ دین کی اشاعت کے لیے۔ دین کی اشاعت کے لیے۔ دین کی اشاعت کا ذریعہ ایک ہی ہے اور وہ دعوت ہے۔ قریش مکہ کا فتنہ کیا تھا؟ یہ تھا کہ ظلم و تشدد کے ذریعہ دین و اعتقاد کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے۔ قرآن نے اس کے خلاف جنگ کا حکم دیا پس جس بات کے خلاف اس نے جنگ کا حکم دیا ہے خود اسی بات کا مرتکب کیونکر ہوسکتا ہے؟