مَن كَانَ يَظُنُّ أَن لَّن يَنصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ
جو شخص یہ سمجھتا (٨) تھا کہ اللہ اپنے رسول (محمد) کی دنیا اور آخرت میں مدد نہیں کرے گا تو اسے چاہیے کہ چھت سے ایک رسی لٹکا دے پھر اپنا گلہ گھونٹ لے، پھر دیکھے کہ کیا اس کی یہ ترکیب اس چیز کو دور کردیتی ہے جو اسے غصہ دلاتی ہے۔
آیت (١٥) پچھلے بیانات کا خلاسہ ہے۔ فرمایا جس انسان نے امید و یقین کی جگہ شک و مایوسی کی راہ اختیار کی، خواہ دنیا کی زندگی کے لیے ہو خواہ آخرت کے لیے، اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اب اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، ایسے آدمی کے لیے صرف یہی چارہ کار رہ جاتا ہے کہ گلے میں پھندا ڈالے اور زندگی ختم کر ڈالے۔ سبحان اللہ ! انسانی زندگی کے تمام مسائل اس ایک آیت نے حل کردیے۔ زندگی امید اور سعی ہے، موت مایوسی اور ترک سعی ہے۔ پس اگر ایک بدبخت نے یہ فیصلہ کرلیا کہ خدا کے پاس اس کے لیے کچھ نہیں، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، تو پھر اس کے لیے باقی کیا رہا؟ کیا ہے جس کے سہارے وہ زندہ رہ سکتا ہے؟ اور زندہ رہے تو کیوں زندہ رہے؟ لیکن نہیں ایمان نام ہی امید کا ہے اور مومن وہ ہے جو مایوسی سے کبھی آشنا نہیں ہوسکتا۔ اس کا ذہنی مزاج کسی چیز سے بھی اتنا بیگانہ نہیں جس قدر مایوسی سے، زندگی کی مشکلیں اسے کتنا ہی ناکام کریں لیکن وہ پھر سعی کرے گا، لغزشوں اور گناہوں کا ہجوم اسے کتنا ہی گھیر لے لیکن وہ پھر توبہ کرے گا، نہ تو دنیا کی کامیابی سے وہ مایوس ہوسکتا ہے نہ آخرت کی نجات سے، وہ جانتا ہے کہ دنیا کی مایوسی موت ہے اور آخرت کی مایوسی شقاوت۔ وہ دونوں جگہ رحمت الہی کو دیکھتا ہے اور اس کی بخششوں پر یقین رکھتا ہے کہ (لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا انہ ھو الغفور الرحیم)