قُلْ إِنَّمَا يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ
اے میرے رسول ! آپ کہہ دیجیے (٤١) مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہی ہے، تو کیا تم لوگ اس کی بندگی کرنے والے ہو؟
حضرت ابراہیم کی بت شکنی کا واقعہ : سورت کی تشریحات ختم ہوگئیں مگر ایک نہایت اہم مبحث باقی رہ گیا ہے۔ یعنی حضرت ابراہیم کی بت شکنی کا واقعہ جو آیت (٥٧) سے (٦٧) تک بیان کیا گیا ہے۔ عام طور پر مفسروں نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ حضرت ابراہیم نے تین موقعوں پر ایسی بات کہی جس پر بظاہر جھوٹ کا اطلاق ہوسکت اہے۔ اس میں سے ایک موقع یہ ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا : ءانت فعلت ھذا۔ کیا تو نے بتوں کو توڑا ہے؟ تو انہوں نے کہا : بل فعلہ کبیرھم ھذا۔ بلکہ اس بڑے بت نے ایسا کیا۔ حالانکہ فی الحقیقت فعل خود انہی کا تھا۔ اس بارے میں استدلال صحاح کی ایک روایت سے کیا جاتا ہے لیکن سب سے پہلے ہمیں خود اس مقام پر تدبر کرنا چاہیے کہ کیا فی الحقیقت یہاں کوئی ایسا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس سے حضرت ابراہیم کا جھوٹ بولنا ثابت ہوتا ہو؟ خواہ وہ جھوٹ کسی درجہ اور کسی نوعیت کا ہو۔ کیا حضرت ابراہیم نے جھوٹ بولا اتھا؟ حقیقت یہ ہے کہ تفسیر قرآن کی تاریخ کی بو العجمیوں میں اس سے بڑھ کر اور کوئی ناقابل توجیہ بو العجمی نہیں۔ قرآن میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے اس اصدق الصادقین کا جھوٹ بولنا نکلتا ہو۔ لیکن بہ تکلف ایک آیت کو توڑ مروڑ کر ایسا بنایا جارہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح جھوٹ بولنے کی بات بن جائے۔ اور اثبات کذب کی یہ مبارک کوشش کیوں کی جارہی ہے؟ صرف اس لیے کہ ایک مزعومہ حدیث موجود ہے۔ پس کہیں یہ قیامت نہ ٹوٹ پڑے کہ اس کے غیر معصوم راویوں کی روایت کمزور مان لینی پڑے۔ گویا اصل اس باب میں غیر معصوم راویوں کا تحفظ ہے، نہ کہ معصوم رسولوں کا اور اگر قرآن میں اور کسی روایت میں اختلاف واقع ہوجائے تو قرآن کو روایت کے مطابق بننا پڑے گا۔ راوی کی شہادت اپنی جگہ سے کبھی نہیں ہل سکتی۔ اب غور کرو یہاں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ خود قرآن کے صاف صاف لفظوں میں کیا ہے ؟ شہر اور کی بت پرستی : سرزمین دجلہ و فرات میں نینوا اور بابل سے پہلے جو شہر آباد ہوئے ان میں ایک شہر اور تھا یہ جنوبی عراق میں فرات کے کنارے آباد تھا۔ اور محل وقوع وہ مقام تھا جو آج کل تل العبید کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کی تنقیب و تحقیق کا سلسلہ ابھی جاری ہے لیکن جس قدر آثار و کتبات روشنی میں آچکے ہیں ان سے باشندگان شہر کے عقائد و اعمال کے بہت سے گوشے واضح ہوچکے ہیں۔ یہاں بت پرستی کی وہ ساری بنیادیں استوار ہوچکی تھیں جو آگے چل کر نینوا اور بابل میں زیادہ وسیع اور منظم شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ پرستش کا مبداء کواکب تھے، سب سے بڑا بت شمس کا تھا، یعنی شمس (سورج) کا۔ اس کے نیچے بہت سے بت مختلف طاقتوں یا مختلف قبیلوں اور آبادیوں کے تھے، خود شہر اور کا محافظ خدا نانعا رتھا، یعنی چاند۔ تل العبید کے ٹیلہ میں جس مندر کے آثار ملے ہیں، یقین کیا جاتا ہے کہ وہ نانعار کا مندر تھا۔ مندر کے خاص پجاریوں اور محافظوں کا ممتاز گروہ بھی پیدا ہوچکا تھا۔ اور انہیں دینی ریاست پیشگی (Priest hood) کی نوعیت حاصل ہوگئی تھی۔ آزر نام نہیں، لقب تھا : حضرت ابراہیم کا ظہور اسی شہر میں ہوا، ان کے والد تارخ کا بچپنے ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ چچا نے پرورش کی تھی اور چونکہ وہ مندر کے پجاریوں میں سے تھا اس لیے آدار کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ آدار قدیم کالدی زبان میں بڑے پجاری یا محافظ معبد کو کہا کرتے تھے۔ یہی آدر ہے جس نے بعد کی عربی میں آذر کی شکل اختیار کرلی اور اسی لیے قرآن نے اس کا ذکر آزر کے نام سے کیا۔ حضرت ابراہیم کا گھرانا : حضرت ابراہیم نے جب آنکھ کھولی تو خود اپنے گھر میں بت پرستی پائی۔ لیکن اللہ نے سچائی کی حجتوں اور دلیلوں کی وحی سے ان کا قلب سلیم اس طرح معمور کردیا تھا کہ نہ تو قوم و وطن کی جہالت و گمراہی اسے چھو سکی نہ خود اپنے عزیزوں اور بزرگوں کا اعتقاد راسخ اسے متاثر کرسکا۔ انہوں نے پہلے اپنے گھرانے میں تبلیغ کی، پھر تمام قوم کو پیام حق پہنچایا۔ دعوت و تبلیغ حق : انہوں نے پہلے شرک و برت پرستی کے خلاف عقل سلیم کی حجتیں اور وجدان صادق کی شہادتیں پیش کیں : (وتلک حجتنا اتینھا ابراہیم الذین علی قومہ نرفع درجات من نشاء ان ربک حکیم علیم) لیکن پھر دیکھا کہ آباؤ اجداد کی تقلید کی ظلمت اس طرح دلوں پر چھا گئی ہے کہ عقل بینش کی کوئی روشنی بھی انہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ہر حجت و آیت کا جواب ان کی زبانوں سے یہی نکلتا ہے کہ (وجدنا اباءنا لھا عابدین) نیز انہوں نے دیکھا ایک عرصہ کے تعامل و توارث نے لوگوں کی عقلیں یکسر مفلوج کردی ہیں۔ بتوں کے روحانی اقتدار و تصرف کا عقیدہ ان کی رگ رگ میں سرایت کرگیا ہے۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آہی نہیں سکتی کہ الوہیت و قد وسیت کی یہ متمثل روحانیتیں جو طرح طرح کے روایتی معجزوں اور الہامی اچنبھوں کا سرچشمہ چلی آتی ہیں محض بے اختیار مورتیاں ہوجائیں اور جو حقیقت ہمارے آباؤاجداد اور ان کے آباؤ اجداد نہ پاسکے، وہ کل کا ایک نوجوان لڑکا پالے۔ چنانچہ وہ ان کی دعوت و تبلیغ کا تمسخر اڑاتے اور کہتے : (اجئتنا بالحق ام انت من اللاعبین) فی الحقیقت تمہارا ایسا ہی عقیدہ ہے یا ہم سے ہنسی تمسخر کرر ہے ہو؟ یعنی بتوں کی عظمت اور ان کے روحانی اقتدار و تصرف کی ہیبت دلوں پر اس طرح چھائی ہوئی تھی کہ اس کے خلاف کسی کا بے دھڑک زبان کھولنا ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا۔ وہ حضرت ابراہیم کی باتیں سنتے تو متعجب ہو کر کہتے : تمہارے ہوش و حواس کہاں گئے؟ تم سنجیدگی سے ایک بات کہہ رہے ہو یا ہم سے مزاح کر رہے ہو؟ ان کا محسوس کرنا کہ مقلدین جہل کے لیے دلائل بیکار ہیں : جب ابنائے قوم کے جہل و کوری کی یہ حالت دکھائی دی تو حضرت ابراہیم نے محسوس کیا، حجتوں اور دلیلوں کی روشنی ایسے لوگوں کے لیے بالکل بیکار ہے، ان کے دلوں میں بتوں کے اقتدار و تصرف کا وہم اعتقاد بن کر جم گیا ہے۔ جب تک اس پر چوٹ نہیں لگے گی ان کی آنکھیں کھلنے والی نہیں۔ پس ضروری ہے کہ اعلان حقیقت کے لیے ایک دوسرا طیرقہ اختیار کیا جائے اور وہ طریقہ ایسا ہو کہ میری دلیلوں اور موعظوں کی روشنی سے نہیں بلکہ خود اپنی اندھی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ صدیوں کی یہ گھڑٰ ہوئی عظمتیں اور نسلوں کی مانی ہوئی معبودیتیں بے اختیار مورتیوں اور بے جان پتھروں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ اور انسانوں کی کسی بڑی تعداد کا کسی بڑٰ مدت تک ایک بات مان لینا اور کے جانا سچائی کا ثبوت نہیں۔ سچائی کا ثبوت صرف عقل سلیم کی حجت ہے۔ قیام حجت کا عملی طریقہ : یہ طریقہ کیا تھا؟ یہ تھا کہ انہوں نے تمام لوگوں کو کھلا کھلا چیلنج دے دیا : (تاللہ لاکیدن اصنامکم بعد ان تولوا مدبرین) یعنی اگر عقل کی کوئ دلیل بھی تمہارے لیے سود مند نہیں، تم اپنے اس وہم باطل میں جمے ہوئے ہو کہ یہ مورتیاں طاقت و تصرف رکھتی ہیں تو اچھا، خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو، نتیجہ کیا نکلتا ہے، جونہی تم آج اپنے بڑے میلہ میں گئے میں تمہارے ان بتوں کے ساتھ ایک داؤ کھیلوں گا اگر فی الحقیقت ان میں طاقت و تصرف ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھا کر اپنے کو بچا لیں۔ یا میرے ہاتھ پاؤں شل کردیں۔ جب ایک جماعت تقلید و وہم پرستی میں اس درجہ ڈوب جائے کہ عقل و بصیرت کی کوئی بات بھی اس کے اندر نہ اتر سکے تو پھر اقناع فکر کی صرف یہی ایک راہ رہ جاتی ہے کہ ان کی عقل کی جگہ ان کے حواس کو مخاطب کیا جائے اور کوئی ایسی بات کر کے دکھا دی جائے جس سے ان کی ساری وہم پرستیوں کا بطلان ہوجائے۔ مثلا ایک بچہ چڑیا کو دیکھ کر ڈرنے لگتا ہے تم ہزار اسے سمجھاؤأ کہ چڑھا کاٹتی نہیں لیکن وہ ماننے والا نہیں۔ اب ایک دانشمند آدمی کیا کرے گا؟ یہ کرے گا کہ دلیلوں کی جگہ مشاہدہ سے کام لے گا۔ وہ اپنی انگلی چڑھا کی چونچ میں ڈال دے گا اور پھر نکال کر بچہ کو دکھا دے گا کہ دیکھ لے اس نے کاٹا ہے یا نہیں کاٹا ہے۔ یہ ایک مشاہدہ بچہ کے اندر جس درجہ یقین پیدا کردے گا وہ ایک سو آدمیوں کی ایک ہزار دلیلوں سے بھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہی حال عقول فاسدہ کا ہے، تم ان کی عقل و فکر سے کچھ نہیں پاسکتے۔ لیکن تم انہیں مشاہدہ کے ذریعہ سے عاجز کردے سکتے ہو۔ حضرت ابراہیم نے بالآخر یہی طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے کہا، جس حقیقت کو تم عقل و فکر سے نہیں پاسکے میں تمہارے مشاہدہ میں لاکر خود تمہاری زبانوں سے الگوا لوں گا۔ تمہارے دل میں یہ بات جمی ہوئی ہے کہ ان میں طاقت و تصرف ہے، اچھا میں ان پر ہاتھ اٹھاتا ہوں، اب اگر سچ مچ کو ان میں اختیار و تصرف ہے تو یہ اپنے سارے معجزے لے کر نمودار ہوجائیں اور مجھے اس سے روک دیں یا مجھ پر کوئی آسمانی عذاب اتار دیں۔ لوگوں نے ان کا یہ اعلان سنا لیکن چونکہ دلوں میں بتوں کی عظمت و تقدیس رچی ہوئی تھی اس لیے قابل التفات نہیں سمجھا۔ وہ سمجھے یہ ایک مجنونانہ بڑ ہے، بھلا کون ہے جو ان قادر و توانا معبودوں کی جناب میں ایسی جرات کرسکتا ہے ؟ اور اگر کرے تو اسے اس کی مہلت ہی کب ملے گی؟ نہیں معلوم، کیا سے کیا ہوجائے؟ پہلے چیلنج دیا، پھر کر کے دکھا دیا : لیکن حضرت ابراہیم اپنے فیصلہ کا اعلان کرچکے تھے اور اسے کر کے دکھا دینا تھا۔ جونہی معبد خالی ہوا انہوں نے ایک ایک کر کے تمام بت توڑ دیے۔ صرف بڑے بت یعنی شمس کو چھوڑ دیا۔ اس میں مصلحت یہ تھی کہ لعلھم الیہ یرجعون۔ اگر یہ باقی رہے گا تو شاید اس کی طرف لوگ رجوع کریں، یعنی یہ سوال اٹھایا جاسکے کہ اس کے سامنے بتوں پر آفت آئی، اور خود یہ بھی کہ رب الا رباب تھا، کچھ نہ کرسکا، اب اسی سے بتوں کی بتاہی کی کہانی سن لی جائے۔ پجاریوں کی حیرانی اور پھر تجایل : جب لوگ واپس آئے اور انہوں نے دیکھا جو بات ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آتی تھی، وہ وقوع میں آگئی اور سچ مچ کو ابراہیم نے سارے بت پاش پاش کردیے تو غور کرو، ان کے دل و دماغ کا کیا حال ہوا ہوگا؟ اور ایسی حالت میں کیا ہونا چاہیے؟ پہلے حیرت چھائی ہوگی کہ یہ کیا سے کیا ہوگیا؟ کیا یہ مقدس مورتیاں اس طرح توڑ پھوڑ ڈالی جاسکتی تھیں؟ پھر حضرت ابراہیم کی ساری باتیں سامنے آگئی ہوں گی۔ صاف نظر آگیا ہوگا کہ اس بارے میں سچا وہی نکلا۔ ہم جھوٹے ہوئے۔ پھر اپنی شکست کے خیال نے غم وغصہ کی شکل اختیار کرلی ہوگی۔ فتح مند آدمی اتنا غضب ناک نہیں ہوتا جتنا شکست خوردہ ہوجاتا ہے۔ خصوصا جبکہ یہ شکست سخت ذلت و ندامت کی شکست ہو۔ اب پجاریوں کے لیے سب سے زیادہ ضروری بات یہ تھی کہ معاملہ کی شناعت عامۃ الناس سے پوشیدہ رکھی جائےْ اگر انہیں معلوم وہ گیا کہ ابراہیم نے پہلے چیلنچ دے دیا تھا اور پھر کر کے دکھا دیا تو ان کے عقیدے فورا متزلزل ہوجائیں گے۔ پس دکھادے کے لیے پجاریوں نے ایسا انداز اختیار کرلیا گویا ابراہیم والی بات کی انہیں خبر ہی نہیں۔ آپس میں پوچھنے لگے : یہ شرارت کس نے کی ہے؟ جس کسی نے کی ہے وہ بڑا ہی مجرم ہے۔ وہ دیوتاؤں کے سخت عذاب کا مستحق ہوگا۔ اس پر بعض دکھاوے کے لیے بول اٹھے (سمعنا فتی یذکرھم یقال لہ ابراہیم) ہمارے سننے میں اایا ہے ایک نوجوان ان مورتیوں کے بارے میں کچھ باتیں کہتا تھا۔ غالبا اسی نے کیا ہو، اسے ابراہیم کہہ کر پکارتے ہیں۔ غور کرو، کہنے والا اب بھی یہ نہیں کہتا کہ اس نے مورتیوں کے خلاف ایک داؤ کھیلنے کی دھمکی دی تھی۔ بلکہ صرف یذکرھم کہہ کر چپ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ کوشش یہ ہے کہ اصل معاملہ عوام سے چھپا یا جائے جو اس حادثہ عظیم کی خبر سن کر وہاں جمع ہوگئے تھے اور جس کا پتہ (فاتوا بہ علی اعین الناس) سے لگتا ہے۔ یعنی پجاریوں نے کہا ابراہیم کو یہاں لوگوں کے سامنے لاؤ۔ بہرحال حضرت ابراہیم بلائے گئے، وہ اب تمام مجمع کے سامنے کھڑے ہیں۔ مجمع میں پجاری اور عوام دونوں ہیں۔ پجاریوں کو سب کچھ معلوم ہے، عوام کو تفصیلات معلوم نہیں۔ حضرت ابراہیم کا مجمع میں آنا اور پجاریوں سے مکالمہ : اب وہ وقت آگیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے انکشاف حقیقت کا جو طریقہ اختیار کیا تھا اس کا نتیجہ آشکارا ہوجائے اور جس حقیقت کے اعتراف سے لوگوں کو انکار تھا، وہ خود انہی کے حلقوں سے اگلوا لی جائے۔ اور دیکھو کیسے صاف اور قدرتی طریقہ سے حضرت ابراہیم اپنی اس عملی اور قوی حجت کی سلطانی کا اعتراف کراتے ہیں؟ پجاریوں نے دکھاوے کے لیے بے خبر بن کر پوچھا (ءانت فعلت ھذا بالھتنا یا ابراہیم) کیا ہمارے معبودوں کے ساتھ تو نے یہ حرکت کی ہے؟ اب اگر حضرت ابراہیم ان کے جواب میں کہتے۔ میں تمہیں پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ ایسا کروں گا۔ اس میں پوچھنے کی بات کیا ہے ؟ تو انہیں ردو وکد کرنے کا موقع مل جاتا، مثلا وہ عوام کے سامنے انکار کردیتے کہ تم نے کبھی ایسا نہیں کہا تھا اور اس طرح اصل مسئلہ کی جگہ ایک دوسری بات میں سوال و جواب ہونے لگتا۔ پس انہوں نے جواب میں حجت الزامی کا ایسا طریقہ اختیار کیا کہ ردو وکد کے سارے دروازے بند ہوگئے، اور حقیقت آشکارا ہوگئی : (بل فعلہ کبیرھم ھذا فاسئلوھم ان کانوا ینطقون) بلکہ اس سب سے بڑے بت شمس نے کیا ہے جس کے آگے تم ہمیشہ اپنے سوالات پیش کرتے رہتے ہو اور پھر کہتے ہو کہ اس کی پراسراسر صدائیں تمہیں (یعنی تم پجاریوں کو) سنائی دیتی ہیں۔ یہ ابھی زندہ و سلامت موجود ہے اگر فی الحقیقت مورتیاں سوالوں کا جواب دیا کرتی ہیں تو اسی مورتی سے پوچھ لو۔ مجھ سے کیوں سوال کرتے ہو؟ پجاریوں کا اعتراف پر مجبور ہونا : یہ جواب سنتے ہی سب پر سناٹا چھا گیا۔ کیونکہ اس کان کے پاس کوئی جواب نہت ھا۔ نہ تو یہ کہہ سکتے تھے کہ مورتی سے امید جواب نہیں، نہ مورتی سے سوال ہی کرسکتے تھے۔ ادھر عوام نتیجہ کے منتظر تھے۔ (فرجعوا الی انفسھم) انفسھم یعنی پجاریوں کی جماعت اعوام سے الگ ہو کر آپس میں باتیں کرنے لگی اور چونکہ اب حضرت ابراہیم کا تیر ٹھیک نشانہ پر لگ چکا تھا، اس یے انہیں اقرار کرنا پڑا : (فقالوا انکم انتم الظالمون) بلاشبہ حق سے نافرمانی کرنے والے ہم ہی ہیں۔ ٹھیک بات تو وہی ہے جو ابراہیم کہہ رہا ہے۔ بالآخر مجبور ہوئے کہ جو بات حضرت ابراہیم ان سے کہلوانی چاہتے تھے سرجھکا کر دبی زبان سے کہہ دیں : (لقد علمت ما ھولاء ینطقون) لقد علمت یعنی یہ حقیقت تو تجھے معلوم ہی ہوچکی ہے کہ مورتیوں کی صداؤں اور مندر کے ہاتف غیبی کے جوابوں کا معاملہ وہ نہیں ہے جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ مورتیاں بولا نہیں کرتیں۔ پھر تیرا یہ کہنا بڑے بت سے پوچھ کر فیصلہ کرو، کیا معنی رکھتا ہے؟ تب حضرت ابراہیم نے تمام مجمع سے مخاطب ہو کر ندائے حق بلند کی : (افتعبدون من دون اللہ ما لاینفعکم شیئا ولایضرکم؟ اف لکم ولما تعبدون من دون اللہ افلا تعقلون) جب ان مورتیوں کے نطق و الہام کے سارے قصے من گھڑت ہیں اور ان کی عجز و درماندگی کا یہ حال ہے جو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو تو پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش پر جم گئے ہو؟ کیا اتنی موٹی بات بھی سمجھ نہیں سکتے؟ تفسیر (ان کانوا ینطقون): ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں کہ کالڈیا میں پجاریوں کی خاص جماعت پیدا ہوچکی تھی اور بت پرستی کی تاریخ میں اصلی کار فرما جماعت ہمیشہ یہی رہی ہے۔ یہ لوگ عوام سے الگ ہوجاتے تھے، اور پھر عوام کو اپنے قبضہ و اقتدار میں رکھنے کے لیے مندروں کی معجزانہ قوتیں برابر بڑھاتے رہتے تھے۔ چنانچہ مختلف طریقے کام میں لاکر لوگوں کو یقین دلاتے کہ مورتیاں بولتی ہیں سوالوں کا جواب دیتی ہیں، نذرانے قبول کرتی ہیں، ہر طرح کے عجائب و خوارق شب و روز ان سے ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم کا اصلی خطاب انہی پجاریوں سے تھا، وہ گھر کے بھیدی تھے، کیونکہ خود ان کا چچا مندر کے پجاریوں میں سے تھا اور اس طرح وہاں کے تمام حالات و باخبر ہونے کا پورا موقع انہیں حاصل ہوگیا تھا۔ انہوں نے چاہا، عوام کے سامنے حقیقت حال کا پجاریوں سے اعتراف کرائیں اور انہوں نے اعتراف کرا کے چھوڑا، پس ان کے اس قول کا کہ : ان کانوا ینطقون۔ یہ مطلب سمجھنا چاہیے کہ اگر مورتیوں کی پراسرار نداؤں کی وہ بات ٹھیک ہے جس کا تم عوام کو یقین دلاتے رہتے ہو تو اس بڑے بت سے ندائے حق کا مطالبہ کرو، اگر یہ ہمیشہ تمہارے سوالوں کا جواب دیتا ہے تو آج کیوں نہ دے؟ اور ایسے موقع پر کیوں نہ دے جب تمام مندرتہ و بالا ہوگیا؟ یعنی یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر بت عام طور پر نطق و کلام کرتے ہیں تو ان سے بات کراکو۔ کیونکہ بتوں کا عام طور پر آدمیوں کی طرح بات نہ کرنا تو عام طور پر مسلم تھا، کوئی بھی یہ عقیدہ نہیں رکھتا تھا کہ یہ ہماری طرح بولتے چالتے ہیں۔ حضرت ابراہیم کی یہ بات عوام کے دلوں میں قطعا اتر گئی ہوگی، ہر شخص بول اٹھا ہوگا کہ بات ٹھیک کہہ رہا ہے۔ بڑی مورتی سے اس حادثہ میں کیوں نہ رجوع کیا جائےْ لیکن جب حضرت ابراہیم نے مجمع عام میں بت پرستی کے خلاف وعظ شروع کیا تو پجاری ڈرے اور انہوں نے چاہا عوام کے بت پرستانہ جذبات بھڑکا کر اپنا کام نکال لیں۔ انہوں نے کہا : (حرقوہ وانصروا الھتکم ان کنتم فاعلین) اسے زندہ آگ میں جلا دو، کیونکہ تمام قدیم قوموں میں دستور تھا کہ مذہبی اور سیاسی مجرموں کو زندہ جلا دینے کی سزا دیا کرتے تھے۔ چنانچہ کالڈیا میں آخری زمانے تک یہی دستور رہا، کتاب دنیا سے معلوم ہوتا ہے کہ کالڈیوں نے ان یہودیوں کو زندہ جلا چینا چاہا تھا جنہوں نے بادشاہ کی معبودیت سے انکار کردیا تھا۔ فرض الباطل مع الخصم کذب نہیں ہے : اب غور کرو۔ اس تمام سرگزشت میں کون سی بات ایسی ہے جس سے حضرت ابراہیم کا جھوٹ بولنا نکلتا ہو؟ بتوں کو انہوں نے کچھ چوری چھپے نہیں توڑا تھا کہ خلاف واقعہ بات کہہ کے اسے چھپانا چاہتے، تمام پجاریوں کے سامنے صاف صاف اعلان کردیا تھا اور اعلان بھی اس تاکید کے ساتھ کہ (تاللہ لاکیدن اصناکم) خدا کی قسم ! میں ضرور تمہارے بتوں کو اپنے داؤ کا نشانہ بناؤں گا۔ پھر جو بات اس طرح صاف صاف کہہ دی گئی ہو اور علانیہ کی گئی ہو اس میں جھوٹ بولنے کی بات کہاں سے نکل آئی؟ باقی رہا ان کا یہ کہنا کہ (بل فعلہ کبیرھم ھذا) تو ظاہر ہے کہ ایک لمحہ کے لیے اس سے مقصود انکار فعل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ فعل کا تو وہ پہلے سے اعلان کرچکے تھے اور خود پوچھنے والوں میں ایک ایک فرد جانتا تھا کہ انہی کا کیا دھرا ہے۔ بالکل کھلی ہوئی بات ہے کہ یہ محض حجت الزامی تھی، اور حجت الزامی کا وہ طیرقہ جسے ہمارے مناظر فرض الباطل مع الخصم حتی تلزمہ الحجۃ سے تعبیر کرتے ہیں۔ صدق و کذب کا سوال یہاں کیونکر پیدا ہوسکتا ہے۔ اثبات کذب کے لیے ایک غلط توجیہ : چونکہ ہمارے مفسروں کے سامنے ایک روایت موجود تھی اور اس کی تعمیل میں ضروری سمجھتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح جھوٹ کی بات بن جائے اس لیے انہوں نے کوشش کی کہ جو بات قرآن میں نہیں ہے وہ محذوف بنا کر بڑھا دی جائے۔ چنانچہ وہ حضرت ابراہیم کے قول (تاللہ لاکیدن اصنامکم) کو سلسلہ بیان سے الگ کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ بات انہوں نے مخاطبوں سے نہیں کہی تھی۔ اپنے جی میں کہی تھی، یعنی ان کا اعلان نہ تھا۔ جی ہی جی میں ایک سازش سوچی تھی، لیکن یہ محض رائے سے قرآن کے مطالب میں اضافہ کرنا ہے۔ قرآن میں یہ کہیں نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے جی میں کہا تھا۔ وہ تو صاف صاف کہہ رہا ہے کہ موقع مخاطبہ اور مکالمہ کا تھا۔ اور جب پجاریوں نے یہ بات کہی کہ (اجئتنا بالحق ام انت من اللاعبین) تو اس کے جواب میں حضرت ابراہیم نے اعلان کیا، علاوہ بریں اس طرح کے محذوفات جبھی تسلیم کیے جاسکتے ہیں جبکہ کوئی قطعی قرینہ موجود ہو۔ یہاں بجز اس ضرورت کے کہ حضرت ابراہیم کو کذب گو بنایا جائے اور کون سی ضرورت لاحق ہوگئی ہے کہ یہ محذوف گھڑ لیا گیا؟ روایت صحیحین : باقی رہی صحیحین کی روایت کہ لم یکذب ابراہیم فی شء قط الا ثلاث کلھن فی اللہ۔ تو اگرچہ اس کی توجیہ و تاویل کی بہت سی راہیں لوگوں نے کھول لی ہیں مگر صاف بات وہی ہے جو امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب ہے اور جسے امام رازی نے بھی دہرایا ہے، یعنی ہمارے لیے یہ تسلیم کرلینا نہایت آسان ہے کہ ایک غیر معصوم راوی سے فہم و تعبیر حدیث میں غلطی ہوگئی، بمقابلہ اس کے کہ ایک معصوم اور برگزیدہ پیغمبر کو جھوٹا تسلیم کرلیں؟ اگر ایک راوی کی جگہ سینکڑوں راویوں کی رواتی بھی ناقص ٹھہرا جائے تو بہرحال غیر معصوم انسانوں کی غلطی ہوگی۔ لیکن اگر ایک معصوم پیغمبر کو بھی غلط بیان تسلیم کرلیا گیا تو نبوت و وحی کی ساری عمارت درہم برہم ہوگئی۔ صحت اور عصمت : بلاشبہ روایت صحیحین کی ہے لیکن اس تیرہ سو برس کے اندر کسی مسلمان نے بھی راویان حدیث کی عصمت کا دعوی نہیں کیا ہے نہ امام بخاری و مسلم کو معصوم تسلیم کیا ہے۔ کسی روایت کے لیے بڑی سے بڑی بات جو جہی گئی ہے وہ اس کی صحت ہے۔ عصمت نہیں ہے، اور صحت سے مقصود صحت مصطلحہ فن ہے۔ نہ کہ صحت قطعی و یقینی مثل صحت قرآن۔ اصل معیار رد و قبول : پس ایک روایت پر صحت کی کتنی ہی مہریں لگ چکی ہوں، لیکن بہرحال غیر معصوم انسانوں کی ایک شہادت اور غیر معصوم ناقدوں کا ایک فیصلہ ہے۔ ایسا فیصلہ ہر بات کے لیے مفید حجت ہوسکتا ہے، مگر یقینیات و قطعیات کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ جب کبھی ایسا ہوگا کہ کسی راوی کی شہادت یقینیات سے معارض ہوجائے گی تو یقینیات اپنی جگہ سے ہلیں گی، غیر معصوم کو اپنی جگہ چھوڑنی پڑے گی۔ نبوت اور سچائی لازم و ملزوم ہیں : نبی کا سب سے بڑا وصف جو قرآن نے بتلایا ہے وہ اس کی سچائی ہے اور احتیاج تفصیل نہیں۔ نبوت ایک سیرت ہے جو صرف سچائی ہی سے بنتی ہے اور صرف سچائی ہی کے سانچے میں ڈھل سکتی ہے۔ ایک نبی کسی بات سے عاجز نہیں ہوتا مگر اس بات سے کہ سچ نہ بولے۔ حقیقت اور سچائی کے خلاف جو کچھ ہے خواہ کسی شکل اور کسی درجہ میں ہو، نبوت کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا۔ اگر نبوت ہوگی تو سچائی بھی ہوگی۔ اگر سچائی نہیں ہے تو نبوت بھی نہیں ہے۔ پس انبیائے کرام کی سچائی اور عصمت یقینیات دینیہ و نقلیہ میں سے ہے۔ روایات کی قسموں میں سے کتنی ہی بہتر قسم کی کوئی روایت ہو، بہرحال ایک غیر معصوم راوی کی شہادت سے زیادہ نہیں اور غیر معصوم کی شہادت ایک لمحہ کے لیے بھی یقینیات دینیہ کے مقابلہ میں تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں مان لینا پڑے گا کہ یہ اللہ کے رسول کا قول نہیں ہوسکتا۔ یقینا یہاں راویوں سے غلطی ہوئی ہے اور ایسا مان لینے سے نہ تو آسمان پھٹ پڑے گا اور نہ زمین شق ہوجائے گی۔ صحیحین کے باب میں افراط و تفریط : اصل یہ ہے کہ ہر گوشہ کی طرح اس گوشہ میں بھی متاخرین افراط و تفریط میں پڑگئے ہیں اور اس کیو جہ سے عجیب عجیب الجھاؤ پیش آرہے ہیں۔ ایک طرف فقہائے حنفیہ ہیں جنہوں نے یہ دیکھ کر کہ صحیح بخاری و مسلم کی مرویات کی زد ان کے مذہب پر پڑ رہی ہے اس امر کی کوشش شروع کردی کہ ان دونوں کتابوں کی صحت کی قوت کسی نہ کسی طرح کمزور کی جائے۔ چنانچہ ابن ہمام وغیرہ نے اس طرح کے اصول بنانا شروع کردیے کہ صحیحین کی ترجیح صحیحین کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ محض ان کی شروط کی وجہ سے ہے۔ پس اگر کسی دوسری کتاب کی روایت بھی ان شرطوں پر اتر آئی تو قوت میں صحیحین کی روایت کے ہم پلہ ہوجائے گی۔ حالانکہ صحیحین کی ترجیح محض ان کی شروط کی بنا پر نہیں ہے بلکہ شہرت اور قبول کی بنا پر ہے اور اس پر تمام امت کا اتفاق ہوچکا ہے۔ دوسری طرف عامہ اصحابہ حدیث ہیں جنہوں نے اس باب میں ٹھیک ٹھیک تقلید کی وہی چادر اوڑھ لی ہے جو فقہائے مقلدین کے سروں پر انہوں نے د یکھی تھی اور اسے پارہ پارہ کردینا چاہا تھا، ان کے سامنے جونہی بخاری و مسلم کا نام آجاتا ہے بالکل درماندہ ہو کر رہ جاتے ہیں اور پھر کوئی دلیل و حجت بھی انہیں اس پر تیار نہیں کرسکتی کہ اس کی کسی روایت کی تضعیف پر اپنے آپ کو راضی کرسکیں۔ یہ محل تفصیل کا نہیں لیکن چونکہ ایک اہم اور اصولی سوال ہے اس لیے ضروری ہے کہ مختصرا اشارات کردیئے جائیں، پس اس باب میں تحقیق کی راہ یہ سمجھی چاہیے کہ : مسلک تحقیق : (ا) قرآن کے بعد دین کی ان تمام کتابوں میں جو انسانوں کی ترتیب دی ہوئی ہیں سب سے زیادہ صحیح کتاب جامع بخاری اور جامع مسلم ہے اور ان کی ترجیح محض ان کی شروع ہی کی بنا پر نہیں ہے بلکہ شہرت اور قبول کی بنا پر ہے۔ شہرت یہ کہ ایک کتاب علم و نظر کے تمام عہدوں اور طبقوں میں عالمگیر طور پر مشہور رہی ہو اور اہل علم نسلا بعد نسل اس کی صحت و فضیلت پر مہریں لگاتے رہے ہوں۔ قبول یہ کہ وہ تمام امت کی نظر و بحث کا مرکز بن گئی ہو۔ ہر عہد اور ہر طبقہ میں بے شمار ناقدوں اور محققوں نے اس کی ایک ایک روایت، ایک ایک راوی، ایک ایک متن، ایک ایک لفظ پر ہر طرح کی بحثیں کی ہوں، ہر طریقہ سے جانچا ہو، ہر طرح کی نگاہیں ردو قبول کی ڈالی ہوں، زیادہ سے زیادہ موافق و مخالف شرحیں لکھی ہوں، زیادہ سے زیادہ درس و تدریس میں مانجھتے رہے ہوں اور پھر بھی اس کی مقبولیت یک قلم بے داغ رہی ہو۔ چونکہ یہ دو باتیں تاریخ اسلام میں صرف انہی دو کتابوں کے حصے میں آئی ہیں۔ ولیس لھما ثالث، اس لیے ان کی ہستی بجائے خود ایک دلیل صحت ہوگئی ہے اور بلاشبہ جب کبھی اختلاف ہوگا تو صحیحین کی روایت محض اس لیے بھی قوی تر سمجھی جائے گی کہ وہ صحیحین کی روایت ہے۔ دوسرے مجامیع کی روایات کتنی ہی شروع بخاری و مسلم پر نکال کر دکھا دیں جائیں لینک وہ اس کی قوت کا ہم پلہ نہیں ہوسکتیں۔ (ب) لیکن یہ جو کچھ ہے ان کی صحت کا اعتقاد ہے، یعنی ایسی صحت کا جیسی اور جس درجہ کی صحت ایک غیر معصوم انسان کے اختیارات کی ہوسکتی ہے۔ عصمت کا اعتقاد نہیں ہے اور اس لیے اگر کوئی روایت شاذ یقینیات قطعیہ قرآنیہ سے معارض ہوجائے گی تو ہم ایک لمحہ کے لیے بھی اس کی تضعیف میں تامل نہیں کریں گے۔ کیونکہ اصل ہر حال میں قرآن ہے جس کا تواتر یقینی اور جس کی قطعیت شک و شبہ سے بالا تر ہے، ہر انسانی شہادت اس پر کسی جائے گی، وہ کسی غیر معصوم شہادت اور رائے پر کسا نہیں جاسکتا کہ : غرض اندر میان سلامت اوست !!! اور پھر ہم دیکھ رہے ہیں کہ محققین حدیث نے اس باب میں کبھی ارباب جمود و تقلید کا شیوہ اعمی اختیار نہیں کیا۔ یہ بخاری کی روایت اسری شریک بن عبداللہ بنا بی نمر والی ہے جس کی نسبت تمام محققین نے بے تامل تصریح کردی کہ شریک کو غلط فہمی ہوئی اور صحیح بات وہی ہے جو مسلم کی روایت انس بن مالک میں ہے۔ اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث خلق اللہ التربۃ یوم السبت۔ کی نسبت تمام محققین نے اتفاق کیا، اس کا رفع ثابت نہیں اور اسرائیلیات سے ماخوذ ہے، پھر اگر اسی طرح صحیحین کی روایت بھی رد کردی گئی کہ ابراہیم خلیل کی صداقت رد نہ کرنی پڑے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی؟ قال انی سقیم : اس روایت میں حضرت ابراہیم کی تین باتوں کو کذب سے تعبیر کیا ہے۔ ایک تو یہی بات ہے، دوسری وہ جو سورۃ صافات میں ہے : (فقال انی سقیم) تیسری یہ کہ انہوں نے بادشاہ مصر کے آگے اپنی بیوی سارہ کو بہن کہا تھا۔ آخری بات قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ تورات میں ہے، اور ہم اس کے موجودہ نسخہ کی صحت کے ذمہ دار نہیں۔ باقی رہا (انی سقیم) والا قول، تو اس کی شرح صافات میں ملے گی۔ یہاں اس قدر کہہ دینا کافی ہے کہ اس کا کوئی مطلب بھی ٹھہرایا جائے، لیکن اس میں جھوٹ کا پہلو کہاں سے نکل آیا؟ ایک شخص نے کہا میں سقیم ہوں، پھر کیوں اسے جھوٹ پر محمول کیا جائے؟ ہم نے یہاں اصل واضح کردی، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ روایت مشہورہ کے متن و اسناد پر نظر ڈالی جائے، اس کے لیے البیان کا انتظار کرنا چاہیے۔