سورة الأنبياء - آیت 107

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے آپ کو سارے جہاں والوں کے لیے سراپا رحمت (٤٠) بنا کر بھیجا ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

رحمۃ للعالمین : یہاں پیغمبر اسلام کے ظہور کا ایک ایسا وصف بیان کیا گیا ہے جو قرآن کے بیان کردہ اوصاف میں سب سے زیادہ اہم اور نمایاں ہے۔ یعنی رحمۃ للعالمین یہ ظہور صرف کسی ایک ملک، کسی ایک قوم، کسی ایک نسل ہی کے لیے ہے بلکہ تمام دنیا کے لیے رحمت کا ظہور ہے۔ یہ وصف بیان کر کے قراان نے ایک کسوٹی ہمارے حوالہ کردی ہے۔ اس پر ہم اس ظہور کی ساری صداقتیں پرکھ سکتے ہیں َ اگر یہ فی الحقیقت تمام نوع انسانی کے لیے رحمت کا ظہور ثابت وہا ہے تو اس کی سچائی میں کوئی شک نہیں، اگر ایسا نہیں ہوا ہے تو پھر سچائی نے قرآن کا ساتھ نہیں دیا۔ ہمارا فرض ہے کہ حقیقت کا حقیقت کے لیے اعتراف کرلیں۔ یہ جانچ تاریخ کی بے لاگ اور بے رحم جانچ ہونی چاہیے۔ ہر طرح کی مزہبی خوش اعتقادیوں سے منزہ، ہر طرح کی خود پرستانہ طرف داریوں سے پاک، کیونکہ یہاں حقیقت کی عدالت موجود ہے اور وہ صرف حقیقت ہی کی شہادت پر کان دھرتی ہے ؟ تاریخ کا فیصلہ : جہل و تعصب نے ہمیشہ اعلان حقیقت کی راہ روکنی چاہی ہے لیکن روک نہیں سکی ہے۔ اس فیصلہ میں بھی تاریخ نے دیر لگائی لیکن بالآخر اسے کرنا پڑا۔ ضروری ہے کہ یہ فیصلہ خود اسی کی زبانی سنا جائے اور ایک معقتد کی طرح نہیں بلکہ ایک مورخ کی طرح عالم انسانیت کے ایک ایک گوشہ سے شہادت طلب کی جائے۔ افسوس ہے کہ اس وقت تک کوئی کوشش ایسی نہیں کی گئی جو اس موضوع پر علمی حیثیت سے وقیع سمجھی جاسکے۔ ہم نے مقدمہ تفسیر میں اس کی کوشش کی ہے اور ایک خاص باب کا موضوع بحث یہی مسئلہ ہے۔ یہاں اتنی تفصیل کی گنجائش نہیں اور اختصار مفید مدعا نہیں، اس لیے مجبورا قلم روک لینا پڑتا ہے۔