وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ
اور ہم نے لوح محفوظ میں لکھنے کے بعد تمام آسمانی کتابوں میں لکھ (٣٨) دیا ہے کہ سرزمین کے مالک میرے نیک بندے ہوں گے۔
قانون وراثت ارض ؛ آیت (١٠٥) سے آخرت تک سورت کے مواعظ کا خاتمہ ہے۔ فرمایا (ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون) ہم نے زبور میں اپنے اس مقرر قانون کا اعلان کردیا تھا کہ زمین کے وارث خدا کے صالح بندے ہوتے ہیں۔ یعنی جماعتوں اور قوموں کے لیے یہاں یہ قانون الہی کام کر رہا ہے کہ انہی لوگوں کے حصہ میں ملک کی فرمانروائی آتی ہے جو صالح ہوتے ہیں۔ صلح کے معنی سنورنے سنوارنے کے ہیں۔ فسد کے معنی بگڑنے بگاڑنے کے، صالح انسان وہ ہے جو اپنے کو سنوار لیتا ہے اور دوسروں کو سنوارنے کی استعداد پیدا کرلیتا ہے، اور یہی حقیقت نیک عملی کی ہے۔ مفسد وہ ہے جو بگاڑ میں پڑتا اور بگاڑ نے والا ہوتا ہے اور یہی حقیقت بدعملی کی ہے۔ پس قانون یہ ہوا کہ زمین کی وراثت سنورنے سنوارنے والوں کی وراثت میں آتی ہے۔ ان کی وراثت میں نہیں جو اپنے اعتقاد و عمل میں بگڑ جاتے ہیں اور سنوارنے کی جگہ بگاڑنے والے ہوتے ہیں۔ زبور کا اعلان : زبور کا جو مجموعہ آج ہے اس کے بے شمار ترانوں میں یہ حقیقت صاف صاف بول رہی ہے۔ مثلا زبور ٣٧ میں ہے۔ بد عملی کاٹ ڈالے جائیں گے۔ مگر وہ جو خداوند کی بات کی راہ دیکھتے ہیں زمین کو میراث میں لے لیں گے۔ قریب ہے کہ شریر نابود ہوجائے۔ تو اس کا ٹھکانا ڈھونڈے اور نہ پائے۔ پر وہ جو حلیم ہیں زمین کے وارث ہوں گے اور ہر طرح کی راحتوں سے خوش دل ہوں گے۔ انسانی زندگی سرتاسر ارث و میراث ہے : تورات، انجیل اور قرآن، تینوں نے زمین کی وراثت کی ترکیب جابجا استعمال کی ہے اور غور کرو، یہ ترکیب صورت حال کی کتنی سچی اور قطعی تعبیر ہے ؟ دنیا کے ہر گوشہ میں ہم دیکھتے ہیں، ایک طرح کی بدلتی ہوئی میراث کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔ یعنی ایک فرد اور ایک گروہ طاقت و اقتدار حاصل کرتا ہے، پھر وہ چلا جاتا ہے اور دوسرا فرد اور گروہ اس کی ساری چیزوں کا وارث ہوجاتا ہے۔ حکومتیں کیا ہیں؟ محض ایک ورچہ ہیں جو ایک گروہ سے نکلتا اور دوسرے کے حصہ میں آجاتا ہے۔ اگر زمین کا کوئی ایک قطعہ سامنے رکھ لو اور جس وقت سے اس کی تاریخ روشنی میں آئی ہے اس کے حالات کا کھوج لگاؤ تو تم دیکھو گے اس کی پوری تاریخ کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ارث و میراث کی ایک مسلسل داستان ہے۔ ایک قوم قابض ہوئی، پھر مٹ گئی، دوسری اس کی وارث ہوگئی پھر اس کے لیے بھی مٹنا ہوا اور تیسرے وارث کے لیے جگہ خالی ہوگئی۔ وھلم جرا۔ پس قرآن کہتا ہے۔ یہاں ارث و میراث کے سوا اور کچھ نہیں۔ اب سوچنا یہ چاہیے کہ جو ورثہ چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں، کیوں ہوتے ہیں؟ اور جو وارث ہوتے ہیں کیوں وراثت کے حقدار ہوجاتے ہیں؟ فرمایا اس لیے کہ یہاں خدا کا ایک اٹل قانون کام کررہا ہے : (ان الارض یرثھا عبادی الصالحون) وراثت ارضی کی شرط اصلاح و صلاحیت ہے۔ جو صالح نہ رہے ان سے نکل جائے گی۔ جو صالح ہوں گے ان کے ورثہ میں آئے گی۔ (ولن تجد لسنتۃ اللہ تبدیلا)