وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
اور یونس (٢٩) جب اپنی قوم سے ناراض ہو کر چل دیئے، تو سمجھے کہ ہم ان پر قابو نہیں پائیں گے، پس انہوں نے تاریکیوں میں اپنے رب کو پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو تمام عیوب سے پاک ہے میں بیشک ظالم تھا۔
یونس (علیہ السلام) : آیت (٨٧) میں ذوالنون سے مقصود بالاتفاق حضرت یونس ہیں۔ عہد عتیق میں ان کا عبرانی نام یوناہ آیا ہے اور ان کے نام سے ایک صحیفہ بھی موجود ہے۔ یہاں انہیں ذوالنون کے نام سے پکارا گیا ہے کیونکہ ان پر مچھلی کا حادثہ گزرا تھا اور قدیم عربی میں نون مچھلی کو کہتے تھے۔ چنانچہ آرامی، کلدانی ور مصری میں بھی مچھلی کا یہی نام بولا گیا ہے۔ اس صحیفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ یروشلم میں تھے کہ وحی الہی نے انہیں مخاطب کیا اور حکمد یا باشندگان نینوا کو نزول عذاب کی خبر پہنچا دیں، نینوا اس زمانے میں دنیا کی سب سے زیادہ عظیم الشان آبادی تھی۔ مہم کی گرانباری اور اپنی بے سروسامانی دیکھ کر بہ مقتضائے بشریت طبیعت ہراساں ہوئی۔ بہرحال یافہ سے ایک جہاز پر سوار ہوگئے جو ترسیس جارہ اتھا۔ اثنائے راہ میں طوفان نے گھر لیا۔ قدیم زمانے میں جہاز رانوں کا اعتقاد تھا اگر طوفان عرصہ تک نہ تھمے تو یہ اس کا ثبوت ہوتا ہے کہ کوئی گنہگار آدمی جہاز میں سوار ہے۔ جب تک وہ موجود رہے گا اس کی نحوست سے طوفان بھی جاری رہے گا۔ چنانچہ یہی خیال اس جہاز کے مسافروں کو بھی ہوا۔ وہ قرعہ ڈالنے لگے کہ مجرم کون ہے اور کسی سمندر کے حوالے کریں۔ جب حضرت یونس نے سنا تو کہا ایسا ہی کرنا ہے تو مجھے سمندر میں پھینک دو، مجھ سے زیادہ اس کا کون مستحق ہوسکتا ہے، صحیفہ میں ہے قرعہ کا فیصلہ بھی یہی ہوا تھا۔ جب طوفان نہیں تھما تو لوگوں نے انہیں سمندر میں ڈال دیا۔ سمندر میں ایک بہت بڑی مچھلی تھی، وہ نگل گئی، یہ تین دن تک اس کے اندر رہے، پھر وہ ساحل کی طرف گئی، اور خشکی پر انہیں اگل دیا، اس طرح قدرت الہی نے موت کے منہ میں ڈال دکر پھر اس سے زندہ و سلامت نکال لیا۔ یناہ نبی کے صحیفہ میں ہے کہ اس نے مچھلی کے پیٹ میں خداوند اپنے خدا سے دعا مانگی تھی اور اس نے اس کی پکار سن لی۔ وہ پاتال کے بطن میں سے چلایا اور اس کی آواز سنی گئی۔ قرآن نے یہاں غالبا اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اذ ذھب مغاضبا۔ ای مغاضبا من اجل ربہ۔ کما یقولون غضبت لک ای من اجلک۔ یعنی اللہ کی خطر خشم ناک ہو کر روانہ ہوا۔ (فظن ان لن نقدر علیہ) ان لن نضیق علیہ۔ اس نے گمان کیا کہ ہم اسے تنگی میں نہیں ڈالیں گے۔ حالانکہ اسے ایک آزمائش پیش آنے والی تھی۔ یاد رہے اس جملہ کا مطلب وہ نہیں ہے جو تفسیر کی روایات میں سعید بن جبیر اور حسن کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ ان اللہ لا یقدر علی معاقبہ۔ یعنی یونس نے خیال کیا، خدا اس پر قابو نہیں پاسکتا۔ کیونکہ ایسا اعقتاد تو صریح کفر ہے اور ممکن نہیں ایک لمحہ کے لیے کسی نبی کے قلب میں گزر سکے۔ یقینا یہ ان ائمہ تفسیر کا قول نہیں ہوسکتا۔ بعد کے راویوں کی کج فہمی ہے۔ اس آیت کی ایک تفسیر تو یہ ہے۔ اسی طرح ایک دوسری تفسیر بھی ہوسکتی ہے اور شاید پہلی سے زیادہ موزوں۔ توارات کے اسی صحیفہ میں ہے کہ اس حادچہ کے بعد پھر انہیں نینوا کے لیے حکم ہوا۔ وہ نینوا گئے ور اعلان کیا، چالیس دن کے بعد یہ شہر برباد ہوجائے گا۔ لیکن یہ بات سن کر باشندگان نینوا نے سرکشی نہیں کی بلکہ بادشاہ سے لے کر ادنی باشندے تک سب کانپ اٹھے۔ سب نے خدا کی ہستی پر اعتقاد کیا۔ بادشاہ نے شاہی لباس اتار کر ٹاٹ کا پیرہن پہن لیا اور تمام باشندوں کے نام فرمان کاری کیا کہ ہر کوئی اپنی بری راہ سے اور ظلم و شرارت کی بات سے باز آجائے۔ روزہ رکھے، خدا کے حجور زار نالی کرے۔ توبہ و انابت کا سر جھکائے۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ عذاب ٹل گیا۔ چالیس دن گزر گئے مگر کوئی ہلاکت ظہور میں نہیں آئی۔ یہ بات حضرت یونس پر گراں گزری، وہ مضطرب ہوئے کہ اعلان حق میں تخلف کیوں ہوا؟ وہ شہر کے باہر ایک چھپر بنا کے مقیم ہوگئے تھے، رینڈی کے ایک درخت کی شاخیں چھپر پر پھیل گئی تھیں۔ قضارا اس درخت کیجڑ میں کیڑا لگ گیا۔ ایک دن صبح اٹھے تو کیا دیکھتے ہیں اس کی شاخیں بالکل سوکھ گئی ہیں اور سایہ کی جگہ دھوپ ہے۔ یہ حال دیکھ کر نہایت رنجیدہ ہوئے۔ تب خداوند نے کہا : تو اس رینڈی کے درخت کے سوکھ جانے پر اتنا رنجیدہ ہورہا ہے حالانکہ اس کے بونے اور اگانے میں تو نے کچھ بھی محنت نہیں کی تھی۔ پھر غور کر میرے لیے ضروری نہیں کہ اس عظیم الشان نینوا پر رحمت و شفقت کروں؟ اس نینوا پر جس میں ایک لاکھ بیس ہزار آدمی اور بے شمار مویشی بستے ہیں؟ جنہیں میں نے پیدا کیا اور پروان چڑھایا؟ یعنی عذاب والی بات اپنی جگہ صحیح تھی وہ کبھی غلط نہیں ہوسکتی تھی، لیکن عذاب کا ظہور لوگوں کے انکار و بدعملی ہی کا نتیجہ تھا۔ جب وہ اس سے باز آگئے تو عذاب بھی ٹل گیا، اور یہاں اصل کارفرمائی ہر حال میں عفو و بخشش کی ہے۔ سرزنش و عقوبت کی نہیں ہے، جب یہ حقیقت ان پر کھل گئی تو ان کا سارا رنج و غم دور ہوگیا۔ پس ہوسکتا ہے کہ آیت میں ان کی خشم ناکی سے مقصود وہ حالت ہو جو باشندگان نینوا کا حال دیکھ کر ان پر طاری ہوئی تھی اور ظلمات سے مقصود رنج و غم کی تاریکیاں ہوں۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے درد و غم کی حالت میں اللہ کو پکارا اور اللہ نے حقیقت حال منکشف کر کے ان کے دل مضطر کو تسکین دے دی۔